سموگ پر سیاست کے ساتھ ساتھ ایک اور احتجاج کی کال!!!!!

میں نے کہیں دیکھا کہ ایک سیاسی جماعت کی خاتون رکن قومی اسمبلی کہیں سموگ میں کھڑی کوئی بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے غیر ملکی دورے کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ ایک سیاسی بیان ضرور ہو سکتا ہے کہ اس معاملے پر صوبے کی وزیر اعلیٰ کو نشانے پر لے لیا جائے کیونکہ گذشتہ برس تو مریم نواز صوبے کی وزیر اعلیٰ نہیں تھیں ۔ سموگ ایک پرانا مسئلہ ہے اور ایسے مسائل سے نجات کے لیے یقینی طور پر کسی نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب دیکھیں جس انداز میں جہاں جہاں سموگ ہے وہاں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں ۔ جب بھی کوئی ایسی مشکل آتی ہے سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بند کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی قسم کے حالات میں پہلا نشانہ تعلیمی ادارے بنتے ہیں۔ بچوں کو گھر بٹھانا سب سے آسان ہے اور کوئی بھی حکومت ہو وہ سب سے پہلے یہی کام کرتی ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی جاتی ہیں۔ کیا یہ مسئلے کا حل ہے۔ جیسے ایک رکن قومی اسمبلی سڑک پر کھڑے ہو کر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے غیر ملکی دورے کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ کاش وہ اپنی حکومت میں سموگ سے نمٹنے کی کوئی پالیسی بنانے کے لیے کام کرتیں، اپنی حکومت کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب دلاتیں، کوئی عملی کام کرتیں، یہ تو سب سے آسان ہے سڑک پر کھڑے ہوں، فوگ یا سموگ میں ایک ویڈیو بنائیں اور جاری کر دیں۔ اب وہ محترمہ جن کی ویڈیو میں نے دیکھی ہے جس جماعت سے ان کا تعلق ہے اور اس وقت ایک صوبے میں ان کی حکومت ہے اور یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت نے حکومت بنائی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اتنی فعال اور ملک و قوم کا درد رکھنے والی خاتون رکن قومی اسمبلی شاید اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ پشاور میں فضائی آلودگی ناپنے والاسسٹم گذشتہ دس سال سے غیرفعال ہے۔ 
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سموگ اور فضائی آلودگی سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے لیکن ہماری ترجیحات میں ہی نہیں کہ مسائل حل کرنے ہیں ۔ مسائل حل کرنے کے بجائے ہمیں مسائل کے نام پر سیاست سے مطلب ہے اور یہی ہم کرتے رہتے ہیں۔ آپ یہیں سے اندازہ لگائیں کہ اس صوبے کہ حکومت گذرے چند ماہ میں احتجاج پر احتجاج کر رہی ہے۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہر دوسرے دن احتجاج کی کال دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ صوبے میں فضائی آلودگی ناپنے والا سسٹم گذشتہ دس برس سے خراب پڑا ہے۔ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے اور اس سے پہلے صوبے میں ایک ہی جماعت حکومت کر رہی تھی۔ سو یہ تو بہت آسان ہے کہ مختلف معاملات میں پیپلز پارٹی کو سندھ کے دیرینہ مسائل کر نشانہ بنایا جائے۔ فضائی آلودگی ناپنے والے سسٹم کے معاملے میں تو خیبر پختونخوا میں بھی یہی حالات ہیں لیکن صوبائی حکومت کو سموگ سے مسئلہ نہیں یا ہو سکتا ہے خیبر پختونخوا کی سموگ صحت کے لیے اچھی ہو اور پنجاب کی سموگ صحت کے لیے نقصان دہ۔ ایسا نہ ہوتا تو یقینا علی امین گنڈا پور جو کہ صوبے وزیر اعلیٰ ہیں اس معاملے میں بھی وفاق کو دھمکیاں دیتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس خرابی کا ذمہ دار بھی وفاق کو قرار دیں اور احتجاج کی کال دے ڈالیں۔ یہ اعلان کریں کہ وفاق جب تک سموگ ختم نہیں کرتا ہم واپس نہیں آئیں گے۔ بدقسمتی سے عوامی مسئلہ سیاست دانوں کا مسئلہ ہوتا نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کسی عوامی مسئلے پر سیاست کرنے کے بجائے عوام کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسی سلسلہ میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے احتجاج کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے، اس بار مطالبات کی منظوری تک واپس نہیں ہو گی۔ علیمہ خان نے احتجاج کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے، اس حوالے سے تیاریاں مکمل ہیں۔ اب کوئی واپسی نہیں ہے، جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے واپسی نہیں ہو گی۔ اب اس احتجاج اور ماضی قریب میں ہونے والی ایسی تمام سرگرمیوں کا ملک کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان ہوا ہے اس کا فیصلہ تو بہرحال تاریخ نے کرنا ہے لیکن بظاہر یہ حالات ملک میں معاشی و سیاسی استحکام کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ ہم خود دنیا میں اپنا مذاق بنا رہے ہیں اور لوگوں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہم پر تنقید کریں۔ کاش کہ قومی مسائل پر سیاسی قیادت قومی سوچ اپنائے اور قوم کی رہنمائی کرے۔ رہی بات مریم نواز کے اس وقت میں بیرون ملک دورے کی تو انہیں بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر صوبے میں ہنگامی حالات ہیں تو بیرون ملک دورہ کسی اور وقت میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے سموگ کے معاملے میں بلاول بھٹو کے بیان نے بھی مایوس کیا ہے۔ ان کا بیان بھی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ملک کے دیگر شہروں میں سموگ سے پریشان پاکستانیوں کو کراچی منتقل ہونے کا مشورہ دے دیا ہے۔ انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے شہروں میں آلودگی کی تفصیل بھی شیئر کیں۔ اب جہاں جہاں سموگ ہے وہاں رہنے والے کیسے کراچی چلے جائیں۔ ایسے بیانات سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے، ان سے نمٹنے کے لیے سوچ بچار اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا میں فضائی آلودگی ناپنے والے سسٹم کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں متعلقہ محکمے نے صوبائی حکومت کی طرف سے توجہ نہ دینے کے بعد  وفاقی حکومت اور پنجاب سے بھی سسٹم ٹھیک کرانے کے لیے تکنیکی مدد مانگی ہے۔ جہاں ائیرکوالٹی مانیٹرنگ سسٹم ٹھیک کرانے کے لیے ایک کروڑ روپے نہ ملیں وہاں سنجیدگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔
آخر میں عدیم ہاشمی کا کلام
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں 
 جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں
وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا  طویل  ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا  مقابلہ پانی کا اور  پیاس  کا
صحرا  امڈ امڈ پڑے دریا  بپھر بپھر گئے
وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا  لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آب محیط عشق کا بحر عجیب  بحر  ہے
تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے

ای پیپر دی نیشن