پری وش کی فرمائش اور موٹے میاں

ملک اور دنیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن ’’پری وش‘‘ توجہ اپنی طرف کرا لیتا ہے اس لئے زیادہ تر لکھنے اور بولنے والے اسی میں آسانی سمجھتے ہیں کہ پری وش ہی کا ذکر کریں۔ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان سب کا اپنا اپنا۔ تازہ توجہ اس خبر نے کھینچی ہے جس کے مطابق پری وش کا اپنے پروانوں کو حکم ہے کہ مار دو یا مر جائو۔ ایک اخبار نے پری وش کی اس خواہش کو دوسری بڑی شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ پروانے اس خواہش پر ٹھٹک گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، کسی کو کیا ماریں گے، خود ہی مارے جائیں گے۔ ویسے اس خواہش کی تشریح کمال درجے کی پری وش کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے صوابی کے جلسے میں کی تھی۔ انہوں نے پروانوں کو حکم دیا کہ اب گھروں سے نکل کر مرنا ہو گا، سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہو گا، مرنا ہو گا، نہ مرو گے تو مارے جائو گے۔ 
مرو گے نہیں تو مارے جائو گے۔ اس تشریح پر کسی نے حاشیہ نہیں لکھا۔ حالانکہ بالکل آسان حاشیہ لکھا جا سکتا تھا، یہ کہ مارے جانے سے بچنا ہے تو خود مر جائو۔ ظاہر ہے، خود ہی مر جائو گے تو کسی دوسرے کو موقع ہی کہاں ملے گا کہ وہ تمہیں مار سکے، خود مر کر تم فسطائی حکمرانوں کو شکست فاش دے سکو گے۔ 
پری وش نے اپنی خواہش کو انگریزی میں بھی ادا کیا، فرمایا ڈو آر ڈائی۔ سلمان اکرم راجہ نے آر کو اینڈ سے بدل دیا اور فرمایا، ڈو اینڈ ڈائی۔ پروانوں کو یہی سمجھ میں آئی کہ ’’ڈو‘‘ کریں گے تو مریں گے، اس لئے وہ ’’ڈو‘‘ سے بچنے کی فکر میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان تیرے جانثار، چھ، چھ ہزار سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ اور 6 ہزار بھی کہاں آگے بڑھتے ہیں۔ چھ ہزار اکٹھے ضرور ہوتے ہیں لیکن قافلہ چلتا ہے تو راستے میں راہیں بدل جاتی ہیں۔ ایک ہزار اِدھر سے، ایک ہزار اْدھر سے اِدھر ْادھر ہو جاتے ہیں۔ آخر میں اکیلے گنڈا پور بچتے ہیں جو کیفے سندیسہ جا کر چائے پیتے، تکے کباب کھاتے پھر کیفے کی انتظامیہ سے ہاتھ ملا کر پر پیچ پہاڑی راستوں سے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ 
______
دو روز پہلے دو صحافی پری وش کے دیدار اور گفتار سے مشرف ہوئے۔ دونوں پری وی کے عشق میں سخت گرفتار ہیں۔ ایک وہ ہیں جن کو روکے جانے پر پری وش نے برہمی بھی ظاہر کی تھی۔ دونوں نے شرفِ دیدار و گفتار سے مشرف ہونے کے بعد اپنے اپنے نشریاتی اداروں کو بتایا کہ پری وش اداس تھے، مایوس تھے، چہرہ ڈھیلا پڑا ہوا تھا۔ 
مایوسی کی وجہ پی ٹی آئی کے ایک ولاگر نے بتائی۔ کسی نے مجھے اس کا کلپ وٹس ایپ پر بھیجا۔ پری وش کے یہ ولاگر اتفاق سے بی ایل اے کے پی آر او کا کام بھی کرتے ہیں، پری وش کے علاوہ ماہ رنگ بلوچ کے ترجمان خصوصی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ 
اس ترجمان نے اپنے ناظرین کو بصد حسرت و یاس جو بات بتائی وہ یہ تھی کہ ہم ان دنوں کمزور پوزیشن میں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو چیف جسٹس ہمارا ہے نہ آرمی چیف۔ یہی وجہ ہے کہ پری وش اب کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ولاگ کا خلاصہ کچھ اس حکایت کی طرح تھا جس میں بتایا گیا تھاکہ ایک صاحب کنوئیں میں جا گرے اور مدد کیلئے پکار کی۔ پکار سن کر ایک راہگیر نے پوچھا، ارے میاں کہاں سے بول رہے ہو۔ اس نے کہا، کنوئیں سے۔ نیک دل راہگیر نے دعا دی، اچھا میاں، جہاں بھی ہو، خوش رہو۔ 
______
ولاگر اکیلے کا یہ خیال نہیں ہے، پری وش کے جملہ پرستاران یہی سوچتے ہیں اور اس پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ پی ٹی آئی کامیابی سے ایک انقلاب تو ، کم از کم، لا ہی چکی ہے۔ یہ انقلاب ’’ہمارے تمہارے ‘‘ کے انقلاب کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ 
مطلب یہ کہ پی ٹی آئی اور پری وش سے پہلے یہ سوچ اس ملک میں کہاں تھی کہ یہ ہمارا آرمی چیف ہے یہ ہمارا آرمی چیف نہیں ہے یا یہ ہمارا چیف جسٹس ہے یہ ہمارا چیف جسٹس نہیں ہے۔ آرمی چیف ہو یا چیف جسٹس، دونوں اس سے پہلے ساری قوم کے سمھے جاتے تھے۔ ہمارے تمہارے کی بحث اس بات میں کبھی نہیں ہوتی تھی۔ یہ انقلاب ’’پری وش‘‘ نے برپا کیا کہ بات ہمارے تمہارے پر آ گئی۔ 
______
ایک نکتہ اور نکلا۔ یہ کہ پری وش کی اپنی طاقت کوئی نہیں۔ اپنی طاقت کبھی تھی ہی نہیں۔ آرمی چیف پری وش کا تھا، چیف جسٹس بھی پری وش کا تو پری وش طاقت کی پوزیشن میں تھا۔ پھر جب دونوں ہمارے نہ رہے تو طاقت بھی پری وش سے روٹھ گئی اور وہ ’’میاں جہاں بھی ہو، خوش رہو‘‘ کی تصویر بن گئے۔ 
دیکھو تو یہ بھی ایک انقلاب ہے۔ اب تک سیاستدان اپنی طاقت کی پوزیشن رکھا کرتے تھے اور اسی کے حساب سے کچھ حاصل کیا کرتے تھے یا حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ لیکن پری وش نے طاقت کا سرچشمہ ہی بدل دیا۔ ہمارا چیف، ہمارا جج کو طاقت کا سرچشمہ بنا ڈالا۔ 
یعنی اپنی طاقت تھی ہی نہیں۔ آکاس بیل کا بھی یہی فلسفہ ہے۔ اس کی ساری طاقت اس درخت سے آتی ہے جس سے وہ چمٹ جاتی ہے۔ درخت سوکھ جائے، گر جائے یا کٹ جائے تو آکاس بیل کا بھی 9 مئی ہو جاتا ہے یعنی دیہانت! 
حیوانی دنیا میں آکاس بیل جیسی اور بھی مخلوق ہوتی ہے جسے پیرا سائٹ کہا جاتا ہے۔ پری وش نے ’’پیراسائٹ انقلاب‘‘ کا تصور دیا۔ 
______
صحافیوں سے ملاقات میں پری وش نے اپنے پرستاروں کی متوقع گرفتاری کی خبر دی ہے یعنی پیشگی اطلاع۔ 
انہوں نے فرمایا کہ اس بار میرے پرستار نکلیں گے تو واپس گھر نہیں جائیں گے۔ 
سمجھے آپ۔ واپس گھر نہیں، جیل جائیں گے۔ زرتاج گل بالکل سچ کہتی ہے کہ ان کا مرشد دیوار کے پار دیکھ لیتا ہے۔ مرشد پری وش نے وقت کی دیوار کے پار دیکھ لیا کہ کارکن نکلے، واپس گھر نہیں گئے، جیل پہنچ گئے۔ 
پری وش کی اس پیشگی اطلاع کا نتیجہ کچھ یوں متوقع ہے کہ گھر سے نکلنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہو جائے گی اور نعرہ کچھ یوں ہو جائے گا کہ 
مرشد تیرے جاں نثار 
دو ہزار، دو ہزار 
یعنی چھ کا عدد تین سے تقسیم ہو جائے گا 
______
گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کی قیادت اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا میں جنگ چھڑ گئی جس کا ذکر گزشتہ ایک کالم میں بھی کیا گیا۔ سوشل میڈیا نے کہا، قیادت غدّار ہے۔۔۔۔بھاڑ میں جائو، قیادت نے جواب دیا۔ بہرحال اب خبر یہ ہے کہ دونوں میں سیزفائر ہو گیا۔ سوشل میڈیا نے غدّاری کا فتویٰ واپس لے لیا اور قیادت نے بھاڑ میں جانے کا مشورہ۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا دنیا بھر میں کسی بھی پارٹی کا سب سے بڑا سوشل میڈیا ہے۔ مصر میں سوشل میڈیا نے لاکھوں افراد کو نکالا۔ ایک بار حسنی مبارک، پھر مرسی کا تختہ الٹا دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کا دیوہیکل سوشل میڈیا مصر کے مذکورہ سوشل میڈیا سے سینکڑوں گنا بڑا ہونے کے باوجود کبھی بھی چھ ہزار سے زیادہ افراد کو نہ نکال سکا۔ 
ایک موٹے میاں، بلکہ بہت ہی موٹے میاں یاد آ گئے۔ سرراہ وزن بتانے والی مشین دیکھی، تو اس پر چڑھ گئے۔ مشین وزن کی تاب نہ لا سکی، ٹوٹ گئی اور میٹر پر سوئی صفر پر آ کر رک گئی۔ قریب کھڑے تماشا دیکھنے والے بچوں میں سے ایک چلاّیا ، ارے، ذرا اس موٹے کو دیکھو، بس ہوا ہی ہوا بھری ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن