ٹرمپ کی جانب سے بھارت نواز مارکو روبیو کے تقرر کی منظوری

امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی کثیر تعداد عمران خان صاحب کی کرشمہ ساز شخصیت سے بہت متاثر ہے۔ ان سے قبل وہ جنرل مشرف کی محبت میں بھی کئی برسوں تک گرفتار رہے۔ نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہوا تھا اسے کور کرنے کے لئے نیویارک گیا تھا۔ وہاں مقیم بے تحاشہ پاکستانی موصوف کی ایک جھلک دیکھنے کو مرے جارہے تھے۔ جنرل مشرف اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کے بعد وطن لوٹ آئے تو میں نے امریکہ کے تین مختلف شہروں میں مزید تین ہفتے گزارے۔ جہاں بھی گیا وہاں مقیم پڑھے لکھے اور کاروباری اعتبار سے کامیاب افراد چند دوستوں کی وساطت سے مجھے ملتے رہے۔ پاکستان سے باہر جاکر میری کوشش ہوتی ہے کہ سوائے اپنے عزیز ترین دوستوں یا رشتہ داروں سے ملاقاتوں کے علاوہ اجنبی پاکستانیوں کے ساتھ گپ شپ میں وقت ضائع نہ کروں۔ جو محدود وقت میسر ہوتا ہے اسے کسی اجنبی ملک کی سیاست وثقافت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں صرف کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ اخلاق کے تقاضے مگر بہت کچھ برداشت کرنے کو مجبور کردیتے ہیں۔
بہرحال امریکہ میں مقیم دوستوں کی وساطت سے جب دیگر پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی تو گفتگو کا آغاز وہ ہمیشہ اس فقرے سے کرتے کہ وطن سے دوری کے سبب وہ پاکستان کے حالات سے بخوبی واقف نہیں۔ مجھے بطور صحافی انہیں سمجھانا چاہیے کہ ہم مثبت راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ میں دیانت داری سے عرض کردیتا کہ پاکستان ویسا ہی ہے جیسا وہ چھوڑ کر آئے تھے اور مجھے اس کے بدلنے کی اپنی زندگی میں امید نہیں۔ میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی مگر محفل میں موجود کوئی دانشورنما شخص ’’مائیک سنبھال لیتا‘‘ اور ہم سب کو یہ سمجھانا شروع ہوجاتا کہ جنرل مشرف پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کی طرح ’’چور اور لٹیرے‘‘ نہیں۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق ہے۔ امریکی انتظامیہ ان پر اعتماد کرتی ہے۔ واشنگٹن کی مدد سے وہ پاکستان کو خوشحالی اور استحکام کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ ان کی امید بھری گفتگو مجھے یہ موقعہ ہی نہ دیتی کہ انہیں یاد دلائوں کہ 1960ء کی دہائی میں جنرل ایوب بھی امریکہ کے بہت لاڈلے ہوا کرتے تھے۔ بعدازاں یہ محبت جنرل ضیاء کو 1980ء کی دہائی میں منتقل ہوگئی تھی۔ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ایوب اور ضیاء کی امریکہ سے قربت پاکستان کے کام نہیں آئی تھی۔ جنرل مشرف کے ساتھ دکھائی محبت بھی ایسے ہی انجام کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے۔
ماضی کو بھلاکر آج کے موضوع کا رْخ کرتے ہیں۔ سیاستدانوں سے شدید نفرت کرنے والے امریکہ میں مقیم ہم وطنوں کو عمران خان بہت پسند ہیں۔ ان میں سے چند ایک اپنے شعبوں خاص طورپر طب کے میدان میں بہت مستند وکامیاب ہوجانے کی وجہ سے امریکہ کی پارلیمان میں بیٹھے کئی طاقتور اراکین کے بھی ’’قریبی دوست‘‘ بن چکے ہیں۔ ان کی دوستی کی بدولت امریکہ کے ایوان نمائندگان(جو ہماری قومی اسمبلی کے برابر ہے) کے اراکین کی ایک تاریخی اور حیران کن تعداد نے باہمی اختلافات بھلاکر ایک قرارداد پیش کی جس میں عمران خان کی مبینہ ’’قید تنہائی‘‘ کی مذمت ہوئی۔ بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ ہوا کہ وہ تحریک انصاف کے قائد کے خلاف قائم کئے ’’جعلی مقدمات‘‘ ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان کے موجودہ بندوبست حکومت سے اْکتائے امریکہ میں مقیم میرے ہم وطنوں کی کثیر تعداد نے حالیہ صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالا ہے۔ وہ کامیاب ہوگیا تو خوش گمانی یہ پھیلائی گئی کہ اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ٹرمپ فون اٹھائے گا اور عمران خان اڈیالہ سے باہر آجائیں گے۔ جیل سے رہائی کے بعد وزیر اعظم ہائوس ہی ان کی اگلی منزل ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ کی جیت کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ آخری بار محض تین دن کے لئے 2016ء میں نیویارک کا مختصر پھیرا لگایا تھا۔ اس کے بعد کئی مواقع آئے۔ عمران خان کے دور حکومت میں تقریباََ چار سال تک ٹی وی سکرین کے لئے بین رہا۔ ان دنوں میرے کئی عزیزازجان دوست مجھے امریکہ بلاتے رہے۔ ان کے لئے میرا ٹکٹ خریدنا اور مجھے اپنے ہاں لاڈلوں کی طرح رکھنا معاشی اعتبار سے چٹکی بجانے کے برابر ہے۔ میں ان کی محبت کا فائدہ اٹھانے کو آمادہ نہ ہوا۔ نہایت ڈھٹائی سے عمران حکومت کے دوران اسلام آباد بیٹھ کر ہی یہ کالم لکھتا رہا۔
میرے چند دوست صدارتی مہم کے دوران تسلسل سے آگاہ کرتے رہے کہ ان کی دانست میں ٹرمپ جیت رہا ہے۔ ٹرمپ کی جیت عمران خان کی مشکلات ختم کردے گی اور اس کے بعد میری مشکلات کا ایک بار پھر سے آغاز ہوسکتا ہے۔ ان کی چھیڑچھاڑ ہنسی خوشی برداشت کرلینے کے بعد انہیں سمجھاتا رہا کہ امریکہ میں اب جوبھی صدر منتخب ہوگا اس سے پاکستان کو خیر کی امیدنہیں رکھنی چاہیے۔ امریکہ کے سیاسی اور دفاعی فیصلہ سازوں کی اکثریت یہ طے کرچکی ہے کہ چین ان کے ملک کی ’’دنیا کی واحد سپرطاقت‘‘ والی پہچان کو دھچکا لگاسکتا ہے۔ چین کو لہٰذا لگام ڈالنا ہوگی اور چین کے گرد گھیراڈالنے کے لئے جنوب مشرقی ایشیاء کے ویت نام اور فلپائن جیسے ممالک کے علاوہ بھارت کو بھی تھپکی دی جارہی ہے کہ وہ جنوب مغربی ایشیاء کا پردھان بن کر چین کو للکارے۔
مجھے یہ خدشہ بھی لاحق رہا کہ ٹرمپ صدر منتخب ہوگیا تو وزارت خارجہ کے عہدے کے لئے فلوریڈا سے منتخب ہوئے سینیٹرمارکوروبیو کو نامزد کرنا چاہے گا۔ منگل کی صبح مجھے یہ جان کر ہرگز خوشی نہیں ہوئی کہ ٹرمپ نے بالآخر اس سینیٹر کو وزیر خارجہ تعینات کرنے کافیصلہ کرلیا ہے۔ مارکوروبیو کی تعیناتی پاکستان کے لئے ہرگز اچھے کی خبر نہیں ہے۔ چین کے خلاف اس کا جارحانہ اور انتہاپسند رویہ میری پریشانی کا واحد سبب نہیں۔ اہم ترین وجہ اس کی بھارت کے ساتھ والہانہ محبت ہے۔ رواں برس کی جولائی میں اس نے امریکی سینٹ میں ایک قانون متعارف کروانے کی کوشش کی تھی جو منظور ہوگیا تو ’’امریکہ-بھارت تعاون‘‘ کا قانون کہلائے گا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ بھارت کو ہر نوعیت کا اسلحہ کسی نگہبانی ونگرانی کے بغیر فراہم کردے گا۔
بات فقط ’’امریکہ-بھارت دوستی‘‘ کو مستحکم رکھنے تک ہی محدود ہوتی تب بھی اتنافکر مند نہ ہوتا۔ رواں برس کی جولائی میں اپناقانون متعارف کرواتے ہوئے امریکہ کے متوقع وزیر خارجہ نے اس امر پر بھی اصرار کیا کہ اگر بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کی کوئی واردات ہو اور اس کا تعلق پاکستان میں موجود کسی دہشت گرد تنظیم سے جڑا نظر آئے تو حکومت پاکستان کے خلاف فوری طورپر اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں۔ مجوزہ قانون میں مارکوروبیو نے جموں وکشمیر کو بھارت کی ’’یونین ٹیرٹری( Territory Union)‘‘ بھی پکارا ہے۔ یوں جموں وکشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ تسلیم کرلیا ہے۔ اس کی یہ تجویز بھی تھی کہ پاکستان کو تحریک آزادی کشمیر کی ’’پشت پناہی‘‘ سے ہر صورت روکنا ہوگا۔ امریکہ میں مقیم اپنے ہم وطنوں سے درخواست ہی کرسکتا ہوں کہ وہ اپنا اثرورسوخ اب مارکوروبیو کی تعیناتی رکوانے کے لئے بھی استعمال کرنے کی کوشش کریں۔

ای پیپر دی نیشن