نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ) بھارتی سپریم کورٹ نے کسی بھی شخص پر الزام لگنے یا جرم ثابت ہونے کے بعد اس کا گھر گرائے جانے کو انسانی حقوق کے خلاف اور ماورائے قانون قرار دے دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بلڈوزر جسٹس کیس میں فیلصہ سناتے ہوئے انتظامیہ کو قانونی عمل کی پیروای کے بغیر کسی کا گھر گرانے سے روک دیا۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کسی بھی گھر کو گرانے سے 15 دن قبل اس گھر کے لوگوں کو نوٹس دے گی اور انتظامیہ نوٹس میں گھر کی غیرقانونی تعمیر‘ مجوزہ قانون کی خلاف ورزی اور گھر گرانے کی مخصوص وجہ بتائے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ انتظامیہ عدلیہ کے اختیار خود استعمال کر کے کسی کو مجرم قرار دے کر اس کا گھر نہیں گرا سکتی‘ گھر گرا کر لوگوں کو اجتماعی سزا دینا ٹھیک نہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعیت علماء ہند اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔ بھارت میں ’بلڈوزر جسٹس‘ کا لفظ سال 2020-21ء میں ہونے والے کچھ واقعات کے بعد سامنے آیا جب کچھ ریاستوں میں حکومتی زمین خالی کرانے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے بلڈوزروں کے ذریعے گھر گرائے جانے لگے۔ زیادہ کیسز میں بھارتی مسلمان اس کا نشانہ بننے لگے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ’بلڈوزر جسٹس‘ کے تحت کسی بھی شخص پر محض الزام لگا کر انتظامیہ کی جانب سے اس کا گھر گرا دیا جاتا ہے اور انہیں بے گھر کر دیا جاتا ہے جبکہ جن ریاستوں میں محض الزام کی بنیاد پر گھر گرائے گئے ان میں سے اکثریت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے گھر گرانے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ماورائے قانون قرار دیدیا
Nov 14, 2024