ٹرمپ کو کیا کوئی کام نہیں ؟؟؟ دوست ہوش کے ناخون لیں

 امیرمحمد خان 
 
امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو شائد جنوری 2025ء میں مسنعد صدارت پر وارد ہونگے، اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوںنے فلوریڈا میں اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریر میںامریکہ میں موجود امریکی پاسپورٹ رکھنے والے پاکستانیوں کی مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ، کہ ’’ عمران خان میرا دوست ہے ، اسے جیل سے رہا کرانے میں اور اسے اقتدار میں لانے کیلئے اپنی کوشش کرونگا ‘‘ ہندوستانی میڈیا اس بیان اور اس ویڈیو کی بھر پور تشہیر کررہا ہے، بھلا ہو نئی ٹیکنالوجی AI کا کہ معلوم ہوگیا کہ یہ ویڈیو جعلی ہے ، اتنی بڑی طاقت کے نو منتخب صدرکے ہونٹوں اور آواز کو اسطرح بناگیا یہ انکی تقریر لگتی ہے۔ اس جعلی ویڈیوکو ملک میںموجود 9 مئی والے بھی اٹھائے گھوم رہے ہیں اور وہ منتظر ہیںکہ ٹرمپ خود آکر جیل کا دروازہ کھولینگے اور گلے میں ہاتھ ڈالکر اپنے مبینہ دوست کو سیدھا اسلام آباد لے جائینگے وہا ں موجود حکومتی عہدیداروں کو شائد مر غ بنائینگے اور کپتان کو بٹھال دینگے ۔ تحریک انصاف اسکے گمراہ لیڈران بھی بہت خوب ہیں کل ہی کی بات ہے کہتے تھے ، فوج ہمارے ساتھ ہے مگر امریکی سازش سے ہمیں بے دخل کیا گیا سائیفر کاڈرامہ ہوا جسکے مرکزی کردار اسوقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو اس سازش کا حصہ تھے وہ بھی جیل میں ہیں مگر گروپوں میں تقسیم پی ٹی آئی کو شائد انکا نام بھی بھول گیا ہے اور انکی رہائی کا کوئی مطالبہ نظر نہیںآتا ۔ اب پی ٹی آئی اسی امریکہ سے آس لگا بیٹھی ہے ، امریکہ کو دوست اور پاکستان کی فوج کو اپنا دشمن کہتی ہے۔ پی ٹی آئی کے کپتان نے پی ٹی آئی کو پہلے ہی U-TURN سے مانوس کیا ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ پہلے U- TURN  کو بے غیرتی کہتے تھے اور خود ہی بے شمار U- TURN  کے موجد ہوگئے ، اس یو ٹرن کی تشریح انہوںنے اپنے مزاج سے کی، عمران خان صرف اپنی جماعت سے محبت رکھنے والوں کے ہی پسندیدہ نہیںبلکہ لگتا ہے موجود حکومت پاکستان یا ملک کا نظام چلانے والوںکے بھی پسندیدہ ہیں اسی لئے وہ لاڈلے قیدی ہیں جو جیل سے احکامت جاری کرتے ہیں، اپنی جماعت کے اپنے من پسند رہنمائوں سے ملاقات کرتے ہیں انہیںاحکامات جاری کرتے ہیں انکے آپس کے جھگڑے حل کرتے ہیں صلح صفائیاںکراتے ہیں ، پھر کہہ دیتے ہیںکہ میں کال دینے والا ہوں ، کارکن اور رہنماء انتظار کریں جو اس میں حصہ لیگا اسے ہی ٹکٹ ملے گا ، حالانکہ بقول تقسیم شدہ رہنمائوں کی اسکی ضرورت نہیںچونکہ انکے بقول اب تحریک کی ضرورت نہیں’’ٹرمپ ‘‘آگیا ہے ۔ چونکہ شائد نئے امریکی صدر کے سامنے امریکہ کی معیشت کو بہتر کرنے ، فلسطین ، اور دنیا کے معاملات جو امریکہ کی دسترس سے باہر ہو چلے ہیں اسے بہتر کرنا ، اور امریکی عوام اپنے صدر کو پہلے اپنے دوست کی رہائی کی کوشش کرنے دینگے پی ٹی آئی کے گمراہ سمجھتے ہیںکہ پاکستان صرف بیرونی طاقتوںکی ہدائت پر کام کرنے والا ملک ہے وہان کوئی اسمبلی نہیں ، کوئی حکومت نہیں ، کوئی فوج نہیں وغیرہ وغیر ہ ۔ کتنی خام خیالی ہے ان9 والوںکی ، ترس ان پرآتا ہے جو نہائت معصومیت سے اسطرح کی باتوںپر یقین کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے کسی حد تک منفی پروپگنڈہ کیلئے استعمال ہونے والے سوشل میڈی پر قابو کرلیاہے مگر تاحال یہ سلسلہ جاری ہے چند دن پہلے جدہ میں موجود ایک سرگرم پاکستانی کی سوشل میڈیا پر تحریر دیکھی اتنی منفی پوسٹ پہلے کبھی نہیںدیکھی ۔امریکہ ، یورپ ، ہندوستا ن میں کنٹرول مشکل ہے مگر سعودی عرب میں موجود ہمارے سفارت کار تو اس گمراہ کن پروپگنڈہ کی روک تھام کرسکتے ہیں برسوں پہلے ابن خلدون نے یہ کہا تھا کہ جب کسی ملک و قوم کا سربراہ کوئی تاجر بنتا ہے تو وہ ہر بات نفع نقصان کے ترازو میں تولتا ہے۔ پھر بھی معصوم و گمراہ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی پہلی ترجیح پاکستان اور ان کا دوست سابق وزیراعظم عمران خان ہوگا۔عام سیاسی کارکنوں کی بات پر کان نہ بھی دھریں تو مشاہد حسین بھی حکومت کو یہی مشورہ دے رہے تھے کہ اس سے پہلے کہ ٹرمپ الیکشن جیت کر فون کرے اورعمران خان کو خود ہی رہا کردیںلیکن اس بیان پر نہ شہباز شریف کی کانپیں ڈانگین اور نہ ہی طاقتوروں نے کوئی پرواہ کی، اب ٹرمپ الیکشن جیت چکا،عالمی رہنمائوں کی مبارکبادیں بھی وصول کر چکے، وزیراعظم پاکستان ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں، ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی اس کامیابی پر اسرائیل اور پی۔ ٹی۔ آ ئی میں جشن کا سماں ہے یقینا لوگ ان دونوں کی قدر مشترک پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایسا کیوں؟حقیقت حال یہ ہے کہ ٹرمپ کی پہلی ترجیح پاکستان ہے اور نہ ہی عمران خان صرف سوشل بریگیڈ نے ادھم مچا رکھاہے نئے صد کے مفادات ہم سے زیادہ بھارت میں ہیں لہذا ہم ترجیح کیسے ہو سکتے ہیں؟ نادان لوگ تو ٹرمپ کی خوشی میں صوابی کے جلسے میں امریکہ کے پرچم بھی لہرا چکے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور خداناخواستہ کل بلوچستا ن میں شرپسند بھارت یا کسی اور ملک کا پرچم لہرا نے لگے تو انہیںکیوںغدار کہا جائے ؟؟؟کسی غیر ملک کا پرچم پاکستان کی سڑکوںپر لہرانا یقینا غداری کے زمرے میں آتا ہوگا زمرے کے لفظ سے لمزے خلیل ذاد کی یاد آگئی جو پہلے مسلمان تھے مگر یہودی خاتوںسے شادی کرکے انہیںکے ہوگئے ہیں انکے پیٹ میںعمرانخان کی رہائی کا درد بہت پہلے سے ہے جسے پاکستان کی حکومت کبھی خاطر میں نہیںلائی، وہ ٹرمپ کے آنے کے بعد پھر اپنی کاراوئیان کریگا ، دوم ملک کے مفرور پی ٹی آئی کے لاڈلے زلفی بخاری بھی بغلیںبجاتے ہوئے دعوہ کررہے ہیں کہ ، ٹرمپ انتظامیہ میں اثر رسوخ انکے قریبی رشتہ داروںکے ذریعے رکھتے ہیںوہ بھی اب کامیابی حاصل کرلینگے ۔ نہ جانے اسطرح کے پروپگنڈے کے حامل یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستا ن الحمداللہ ایک طاقتور ملک ہے عوام کی پسندیدہ حکومت ہے اب 2011ء کی وہ حکومت نہیں جب ’’ریمنڈ ڈیوس ‘‘ چاہے خون بہا ملنے کے بعد ہی صحیح مگر جیل سے امریکہ بھیج دیا تھا آج پاکستان کے دنیا سے قریبی ا نمنٹ مراسم ہیںاسلئے خام خیالی کو دل س نکال کر اگر یہاں سیاست کرنا ہے توحکومت کو کوئی معیشت کو اچھا مشورہ دو اسمبلی میں بیٹھ کر، یہ بات کسی کو قابل قبول نہیںکہ ’’میںمعیشت بہتر کردونگا ، دودھ کی نہریں بہادونگا ، چاند تارے لادونگا اگر میری حکومت ہوئی تو ، یہ کونسی سیاست ہے ؟؟ چلے ہمارے ہاں ’’ڈیل ‘‘ کی باتیںہوتی ہیںتو زلفی بخاری امریکہ سے ڈیل کریں امریکہ پاکستان کی بیٹی ’’عافیہ صدیقی کو پاکستان کے حوالے کرے اور زلفی بخاری اپنے لیڈر کو پاکستان سے لیجائیں تاکہ اس جماعت کے دیگر لوگ اپنی سیاست کرسکیں ۔ 

ای پیپر دی نیشن