اتوار ‘ 26 ذیقعد 1433ھ 14 اکتوبر2012 ئ

گوجرانوالہ میں دو بہنوں کو طلاق دینے کے بعد تیسری کو ساتھ ملا کر اس سے شادی کرلی۔
 ہمارے ہاں طلاق کا لفظ کثرت سے بولا اور اس پر عمل کیا جاتا ہے اور طلاق میں سے جب بھی تڑاک کی آواز آتی ہے‘ بالعموم کوئی عورت ہی ٹوٹتی ہے جبکہ ان نازک آبگینوں کا خیال رکھنے کی تلقین رحمة للعالمین نے اپنے آخری خطبہ میں بھی فرمائی تھی لیکن آج کا مرد ِمسلم گویا مرغ مِسلّم ہے‘ جب چاہے اٹھ کر زندہ ہو جائے اور پر جھاڑ کر آن کی آن میں اپناگھر اجاڑ کے رکھ دے اور کسی خاتون کی زندگی بگاڑ کر رکھ دے۔ ایسے مرغ مسلم کو اگر جلد از جلد زینتِ دسترخوان بنا لیا جائے تو ممکن ہے کوئی دوسرا گھر اجڑنے نہ پائے۔
طلاق ہی کے بارے میں میر نے خواتین ہی کی جانب سے کہا ہو گا....
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاﺅ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے
گوجرانوالہ کے چڑے بہت مشہور ہیں‘ جن کے کھانے سے شباب عود آتا ہے۔ مگر کبھی کسی نے گوجرانوالہ کی چڑیوں کا خیال نہ رکھا کہ وہ جب اپنے چنبے سے اڑ جاتی ہیں تو ان کا گھونسلہ ہی کوئی چیل صف مرد تنکا تنکا کر دیتا ہے۔ گوجرانوالہ ہمارا صنعتی شہر ہے اور کھانے پینے کی صنعت میں بھی بہت آگے ہے۔ اس کا نام گوجرانوالہ اس لئے رکھا گیا تھا کہ یہاں گوجروں کی اکثریت تھی‘ مگر اب تو اس کا نام بٹ نگر رکھنا بھی مناسب ہو گا کیونکہ پکوانوں کی صنعت بٹ برادری نے سنبھال رکھی ہے۔ ویسے بھی بٹ پلیٹ صاف کرنے میں سنت پر کماحقہ عمل کرتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
ایبٹ آباد میں خاتون کے ہاں بیک وقت تین بچوں کی پیدائش ہوئی‘ زچہ بچہ خیریت سے ہیں۔
پاکستانی خاتون کا بیک وقت تین رنز کرلینا‘ اچھی بیٹنگ ہے اور اچھا شگون بھی کہ جس بیدردی سے تمام پاکستانی اور بین الاقوامی آداب و قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے‘ اسکی کچھ تو تلافی ہو۔ بس خواتین سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے حکمران جنم نہ دیں کیونکہ پھر علاج الٹا ثابت ہو گا....
ناکے پر ناکہ ہے کاکے پر کاکا ہے
اندر بیٹھا زرداری ہے باہر کھڑا اوباما ہے
ہمارے ہاں بھی بڑے بڑے گائناکالوجسٹ سائنس دان موجود ہیں‘ ہمارے ہی ماہرین امریکہ میں کرامات دکھاتے ہیں‘ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ یہ کاکوں کی یلغار روک نہیں سکتے۔ کم از کم انہیں قطار باندھنے اور باری کا انتظار کرنے کا کوئی فارمولا ایجاد کیوں نہیں کرتے کہ ہر کاکا بہبود آبادی والا وقفہ ڈال کر مناسب وقت پر تشریف آور ہو اور ہمارے ماہرین کوئی ایسی دوا بنائیں کہ ایک عورت ایک وقت میں ایک ہی بچہ دے۔ پہلے ہی انکروچمنٹ بہت زیادہ ہے‘ اب یہ کاکاجات کی انکروچمنٹ تو سڑکیں بلاک کردیگی۔
 لاہور شہر ہی کو دیکھ لیجئے کہ ہر روز کنٹری پام کلب مغلپورہ کے اندر کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ شہر کی ایلیٹ کی ہزاروں گاڑیوں نے ساری جگہ گھیری ہوتی ہے اور ٹریفک پولیس اپنا فرض غیرمنصبی سمجھتے ہوئے پہلے ایلیٹ کی گاڑیوں کو پل پار کراتی ہے اور عوام جو مصائب جھیلنے اور ووٹ ڈالنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں‘ ان کا ہجوم خضریٰ مسجد سے لے کر کنٹری پام کلب تک دست بستہ کھڑا انتظار کرتا ہے کہ خواص جائیں تو وہ آئیں۔
٭....٭....٭....٭
ماہرین کی تحقیق کے مطابق: بری خبروں سے عورتوں پر زیادہ ذہنی دباﺅ پیدا ہوتا ہے، جس عورت کے بارے میر جیسے ماہر نسوانیات نے کہا ہے ....
 نازکی اُس کے لب کی کیا کہئے
 پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
 اور....
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
 تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
 اب ایسی نازک گڑیاﺅں کو بُری بُری خبریں سنانا،ڈرانا دھمکانا اور اونچی آواز سے مخاطب کرنا بھلا کہاں کی خوش ذوقی ہے ہماری تجویز ہے کہ خواتین نیوز چینلز کا بائیکاٹ کردیںکیونکہ ہمارے ہر چینل کا خبرنامہ گویا قہر نامہ ہوتا ہے جبکہ نازک مزاج خوبرویاں تاب سخن ندارد خوبروﺅں کی نازک مزاجیاں کب لفظوں کا بار بھی سہہ سکتی ہیں۔
اقبال نے بھی تسلیم کیا تھا ....
 وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں
 اب ایسے قوس و قزح کے بہاریں رنگوں میں بھنگ ڈالنا اور اُن کو وطن عزیز میں گرنے والی لاشوں کے انبار دکھانا، ڈراﺅنے حملے دکھانا،بجلی کا بھاری بل دکھانا،یہ اچھا نہیں لیکن دنیا کا نظام چلانے والے مرد حضرات نے ہی تو یہ کیفیت پیدا کی ہے۔
خواتین کو چاہئے مردوں کو ٹی وی پر رنگ و آہنگ ،فیشن شوز، مزاحیہ پروگرام دکھانے والے چینل فکس کردیں اور اس بگڑی ہوئی دنیا کا نظام اب اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ جہاں مرد و حضرات ناکام ہوچکے ہیں، وہاں ہماری خواتین ہی کام کر دکھا سکتی ہیں۔ اعلان ختم ہوا،شکریہ۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن