گھروں میں سلائی کرنے والی خواتین بھی درزیوں جتنی سلائی وصول کرنے لگیں

کپڑوں کی خریداری کے بعد ان کی سلائی سب سے اہم مرحلہ تصور کیا جاتا ہے ۔اگر مہنگے سے مہنگا سوٹ بھی اچھا نہ سلا ہو تو اس کی خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے ۔معمولی سوٹ کو خوبصورتی سے سیا جائے تو وہ مہنگے سوٹ سے کہیں زیادہ اچھا لگنے لگتا ہے۔اگرہم سلائی کی بات کریں تو درزیوں کے نخرے آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ عید سے تقریباً ایک مہینہ قبل ہی درزی کپڑوں کی سلائی کے آڈرز لینا بند کر دیتے ہیں۔ سلائی کی باری آتی ہے تو سادے سوٹ کی سلائی پانچ سو روپیہ اور معمولی سی ڈیزائننگ کروا لی جائے تو آٹھ سو روپے کہیں نہیں گئے۔فراکس آج کل فیشن میں ہیں اورہر لڑکی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت فراکس زیب تن کرے اس وقت فراکس کی سلائی ایک ہزار سے  شروع ہو کر ڈیزائننگ کے مطابق تین، چار سے پانچ ہزار اور کبھی اس سے بھی زیادہ وصول کی جارہی ہے۔درزیوںسے زیادہ سلائی کا گلہ کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے بجلی کے بل زیادہ ہونے کی وجہ سے سلائی زیادہ ڈیمانڈ کرنی پڑتی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم زیادہ سلائی وصول نہ کریں تو پھر کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ادھر متوسط طبقے کی خواتین کا کہنا ہے کہ درزیوں سے سلائی کروانا ہماری پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔گھروں میں بیٹھ کر سلائی کرنے والی خواتین  کے نخرے بھی کچھ کم نہیں ہیں وہ بھی درزیوں جتنی سلائی ڈیمانڈ کرنے لگی ہیں۔معمولی سوٹ کی سلائی یہاں بھی پانچ روپے وصول کی جارہی ہے اور ڈیزائننگ کے مطابق درزیوں کی طرز پر یہ خواتین بھی سلائی ڈیمانڈ کررہی ہیں۔پہلے جو خواتین درزیوں کو سلائی دینے کی استعداد نہیں رکھتی تھیں وہ گھر میں سلائی کرنے والی خواتین سے کپڑے سلوا کر اپنا شوق پورا کر لیتی تھیں لیکن اب تو گھر میں سلائی کرنے والی خواتین سے بھی کپڑے سلوانا متوسط طبقے کی خواتین کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن