”لبیک اللھم لبیک“ فضائل حج

علامہ منیر احمد یوسفی
 حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم نے فرمایا:”اِسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے۔ (1) اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے محبوب بندے اور سچے رسول ہیں (2) نماز (پنجگانہ) قائم کرنا (3) زکوٰة دینا (4) رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور (5) حج کرنا“۔ جو کوئی اِن میں سے کسی ایک کا اِنکار کرے گا، وہ اِسلام سے خارج ہو گا۔ (بخاری‘ مسلم) ۔اِسلامی عبادات میں حج کا مقام نہایت ارفع و اعلیٰ ہے۔ اِس میں اِجتماعیت کا حقیقی تصور پایا جاتا ہے۔
حج کے معنی:
حج کے لغوی معنی ہیں قصد اور اِرادہ۔ اِصطلاحِ شرع میں ”وقوفِ عرفات“ پرمشتمل عبادت کے لئے کعبة اللہ کا قصد کرنا یا عبادت کی نیّت سے کعبة اللہ کا اِرادہ کرنا حج ہے۔ حج کا سبب کعبة اللہ ہے۔
حج ایک معیّن اور مقرر ہ وقت پر اﷲ کے فرمانبردار بندوں کا اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر، اُس کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم ؑ اور محبوب نبیءکریم کی پیروی میں ان کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دینا ہے۔ ” مقام ِکعبہ کو سب سے پہلے فرشتوں نے بیت المعمور کے مقابل بنایا اِس کا نام فرشتوں کے ہاں ”ضراح“ تھا۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے دو ہزار سال پہلے سے فرشتے اِس کا حج کرتے تھے اور انبیاءکرامؑ ‘ ہمارے نبی کریم کے دُنیا میں تشریف لانے تک یہاںحج کرتے رہے ۔
 مشرکین پر پابندی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ عہد نبوت میں رسولِ کریم نے حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو چند آدمیوں کے ساتھ ”امیر الحجاج“ بنا کر بھیجا تاکہ لوگوں کو خبر کریں: کہ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے“ (نسائی، ترمذی ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں حضرت سیّدنا علیؓ کے ساتھ آیا‘ جب رسولِ کریم نے اُنہیں سورة برا¿ت سُنانے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا۔ راوی (حضرت محررؓ) کہتے ہیں میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا تم کیا پکار رہے تھے؟ انہوں نے کہا ہم پکار رہے تھے ”نہیں جنت میں جائے گا مگر مومن اور وہ جو ننگا ہوگا وہ بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرے“ (مشکوٰة) اور جس شخص نے رسولِ کریم سے اِقرار کیا ہو تو اُس کی مدت اور مہلت چار ماہ تک ہے تو جب چار ماہ گزر جائیں تو اللہ اور اُس کے رسولِ کریم مشرکوں سے بیزار ہیں۔ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہ آئے تو میں پکارتا ہوں اور میری آواز بڑھ گئی۔
حج شریف پر جانے کا اِعلان:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم نے جب حج کا اِرادہ فرمایا‘ تو لوگوں میں اِعلان فرما دیا گیا پھر لوگ جمع ہوگئے۔ (مشکوٰة ، ترمذی) آپ نے سارے عرب میں اپنے حج کا اِعلان فرمایا کہ ہم فلاں تاریخ کو مدینہ منورہ سے روانہ ہو رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اِیمان والے لوگ اِس سفر میں آپ کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل و اَحکام سیکھ لیں اور سفر حج میں آپ کی صحبت و رفاقت کی خاص برکات حاصل کر سکیں۔ چنانچہ دُور دراز سے ہزاروں مسلمان جن کو اِس کی اِطلاع ہوئی اور اُن کو کوئی مجبوری نہیں تھی، مدینہ طیبہ آگئے۔ 24 ذیعقدہ کو جمعة المبارک تھا ۔اُس دن آپ نے خطبہ¿ مبارکہ میں حج اور سفرِ حج کے متعلق خصوصیت سے ہدایات جاری فرمائیں اور اگلے دن 25 ذیعقدہ 10ھ بروز ہفتہ بعد نماز ظہر مدینہ طیبہ سے یہ عظیم الشان نورانی قافلہ روانہ ہوا اور عصر کی نماز ذوالحلیفہ جا کر پڑھی۔ جہاں آپ کو پہلی منزل کرنی تھی اور یہیں سے اِحرام باندھنا تھا۔ رات بھی وہیں گزاری اور اَگلے دن یعنی اتوار کو ظہر کی نماز کے بعد آپ اور آپ کے صحابہ کرام نے اِحرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے اور راستہ میں عُشّاق کی تعداد میں اِضافہ ہوتا گیا۔ روایات کے مطابق اِس سفر میں آپ کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ تیس ہزاروں تک تھی۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے رسولِ کریم نے خطبہ اِرشاد فرمایا: اَے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو“۔ایک شخص نے عرض کیا: ”کیاہر سال، یا رسول اللہ “۔ آپ چپ رہے‘ حتیٰ کہ اُس شخص نے تین بار عرض کیا‘ تو آپ سرکار نے فرمایا: ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے پھر فرمایا، جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے کر گزرو اور جب تمہیں کسی کام سے منع کروں تو اُسے چھوڑ دو“۔ (مسلم جلد۱ ص۴۳۲‘ مشکوٰة ص۲۲۱)

ای پیپر دی نیشن