…میڈیکل بورڈز کی حیثیت…

سیاسی و عوامی موضوعات پر تبصرے کرتے ہوئے زمانہ بیت گیا۔ چالیس سالہ صحافتی زندگی منہ بولتا ثبوت ہے‘ لیکن آج میں جگ بیتی نہیں‘ آپ بیتی بیان کر رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ میری اس اپنی کہانی کو سن اور پڑھ کر وطن عزیز کے مقتدر حلقوں کے رونگٹے ضرور کھڑے ہونگے کہ ان کے اللے تللو خاص کر ڈاکٹر مافیا نے ان کے احکامات کو کس بے دردی کے ساتھ ہوا کے بے رحم جھونکوں کے سپرد کر دیا۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے آج تک جو کچھ لکھا‘ بیان کیا اپنے ضمیر کو زندہ رکھا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تمام تر دنیاوی ضرورتوں‘ مجبوریوں اور مسائل کے باوجود میرا ضمیر آج بھی زندہ اور جاگ رہا ہے۔ ضمیر کا زندہ رہنا ہی میری کل کائنات ہے۔
یہ سچ ہے کہ بین الاقوامی لاز کے مطابق عوام کو طبی سہولیات دینا ہر ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شاید مجھے اس بات کا اندازہ ہی نہ تھا کہ وطن عزیز کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کسی سیریس مریض سے پیچھا چھڑانے کا بہترین طریقہ ہماری حکومتوں نے اپنا رکھا ہے اور وہ ہے میڈیکل بورڈز کی تشکیل و قیام۔ مجھے آج بھی اپنے ایک خیرخواہ سینئر ڈاکٹر کے الفاظ یاد آرہے ہیں کہ کسی سفارشی مریض کو ٹرخانے کا بہترین حل اور طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ کسی سرکاری ہسپتال میں ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیدیا جاتا ہے۔ اس امید پر کہ مذکورہ مریض تین چار ڈاکٹروں کی مشترکہ رائے کے مطابق علاج کروا سکے گا مگر یہ بات میں دلائل سے ثابت کروں گا کہ 90 فیصد ایسے مریض جن کا سرکاری طورپر میڈیکل بورڈ بنایا جاتا ہے‘ اکثر علاج سے محروم رہتے ہیں۔ ذاتی مثال سے ثابت کر رہا ہوں کہ میڈیکل بورڈ کی معرفت علاج کروانے کی تمنا رکھنے والے مریض اکثر ذلیل و خوار ہوکر پرائیویٹ اداروں کا رخ کرکے اپنی آخری پونجی تک گنوا بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک بنائے گئے ہیں اسی وجہ کیلئے۔ وہ پھنسے ہوئے مرغوں کو بُری طرح ذبح کریں۔ آگے ذبح ہونے والے مریض کی قسمت ہے کہ وہ صحت یاب ہوتا ہے یا زندگی گنوا بیٹھتا ہے۔ٹیومر جسے کینسر بھی کہا جاتا ہے کا علاج کرانے کیلئے میں نے شہر کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں کے دروازے کھٹکھٹائے مگر کوئی دروازہ نہ کھلا۔ آخر شیخ زید ہسپتال کے ایک پروفیسر نے ٹیومر کا آپریشن کرنے کی ذمہ داری تو اٹھا لی مگر پرائیویٹلی (پرائیویٹ مریض کے طورپر) اور بھاری بھرکم فیس کے عوض ‘ بھاری فیس ادا کرنے کے بعد بھی آپریشن کامیاب نہ ہو سکا اور مزید رقم دینے کی شرط پر دوسری بار آپریشن کیا گیا۔ اس دوران سرجن مجھ سے لاکھوں روپے ہتھیا چکا تھا اور آپریشن کو مزید کامیاب اور دیرپا بنانے کیلئے مزید چار لاکھ روپے مانگ رہا تھا۔ اس دوران سرکاری ہسپتال ہی کے ایک پلاسٹک سرجن نے کچھ کم خرچے پر آپریشن کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی‘ لیکن وہ بھی کامیاب رزلٹ نہ دے سکا۔ بار بار کے آپریشن ناکام ہوئے اور پیسہ پانی کی طرح بہہ جانے پر میں سخت پریشان تھا کہ ایک اور پرائیویٹ سرجن نے کامیابی کی امید بندھواتے ہوئے چودہ گھنٹوں کا آپریشن کیا۔ بقول سرجن مزید ایک آخری آپریشن ہوگا۔ میں نے دریافت کیا خرچہ کتنا ہوگا تو جواب ملا ’’جتنا گُڑ ڈالیں گے اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘ یعنی جتنی رقم زیادہ دیں گے‘ آپریشن اتنا ہی اچھا ہوگا۔ تین چار آپریشنوں پر ہی پونجی ختم کر چکا تھا۔ میری گاڑی تک بک چکی تھی۔ بطور قلمکار میں نے دل کی بھڑاس نوائے وقت ہی کے کسی کالم میں نکالی اور اے تا زیڈ کہانی بیان کر ڈالی۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کالم کا نوٹس لیا اور میرا مزید علاج سرکاری طورپر کرنے کے احکامات جاری کئے۔ آپ کو جان کر حیرت اور دکھ ہوگا کہ چیف منسٹر کے احکامات کے بعد ایک نہیں دو میڈیکل بورڈز تشکیل دیئے گئے مگر میرا دعویٰ ہے کہ سرجن حضرات ایکا کو چکے تھے کہ اس مریض کا سرکاری طورپر علاج نہیں کرنا کیونکہ جو سرجن مجھے مسلسل ذبح کرتے رہے تھے فری علاج کرنا انہیں قبول نہ تھا اور انہوں نے اتفاق رائے سے مجھے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مجھے جناح ہسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے آفر دی ۔ ریکارڈ بتایا کہ اس کے اوپر زبردست دبائو تھا کہ آپریشن نہ کریں پھر ڈاکٹر صاحب نے ففٹی ففٹی کا سہارا لیا۔ معمولی سا آپریشن کرکے ساتھیوں کی بات بھی مان لی۔یہ خبر اڑتی ہوئی اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی تک بھی پہنچ گئی۔ انہوں نے شیخ زید ہسپتال کو احکامات جاری کئے مگر بے سود کیونکہ وہیں کے سرجن چار پانچ لاکھ روپے کھا چکے تھے۔ فری آپریشن کیونکر کر سکتے تھے بھلا۔ لہٰذا نہایت مہارت کے ساتھ معاملہ گول کرا دیا۔ اسے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہی کہا جا سکتا ہے کہ تقریباً سترہ لاکھ روپوں نے میرا کینسر ختم کر دیا۔ کینسر کو شکست دی ہی تھی کہ دل کی تکلیف نے آلیا۔PIC شہر میں دل کا واحد سرکاری ہسپتال ہے۔ اسکی کارکردگی بارے میں اکثر نئی نئی باتیں منظرعام پر لاتا رہتا ہوں۔ میں مانتا اور جانتا ہوں کہ روزبروز بدتر ہونے والی اس کی صورتحال سے خادم پنجاب بخوبی آگاہ ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اصلاح احوال اور بہتری کیلئے یہاں ایک نہیں دو نہیں تین تین خواجہ حضرات منتظم بنا د دیئے گئے ہیں مگر اس تمام تر کوشش کے باوجود حالات کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ شہبازشریف کے واضح احکامات کے باوجود سینئر ڈاکٹر لفٹ نہیں کراتے۔ وہ غریب اور سفید پوش مریضوں کو چیک نہیں کرتے۔ ایمرجنسی یا ایمرجنسی کے باہر دوائیاں نہایت غیرمعیاری مل رہی ہیں۔ یہاں سرکاری عہدیداران کی پرچی چلتی ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ معاملات خواجہ حسان‘ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کے بس میں نہیں رہے۔

خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...