ہماری قسمت کو صرف اور صرف تعلیم سے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پورے پاکستان کے ’’وڈیرے‘‘ تعلیم عام کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ اس وقت کی پارلیمنٹ کے اراکین کو دیکھ لیں کہ ان میں کتنے لوگ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں، وہ تو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس قسم کے نظام کو وڈیرہ شاہی کہا جائے گا۔ ہمارے دیہات میں تو خوفناک حد تک جہالت پائی جاتی ہے۔ دور دراز علاقوں کے سکولوں میں گدھے‘ گھوڑے اور مال مویشی بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ سب مال مویشی وڈیروں کے ہوتے ہیں۔ یہ یاد رکھا جائے کہ جب تک ملک میں بامقصد تعلیم عام نہ ہوگی‘ اس وقت تک ہمارا وطن ترقی نہ کر سکے گا۔ اس خطے کی سب سے بڑی اس ناکامی کے ذمہ دار موجودہ اور سابق حکمران ہیں۔ دیہات تو انتہائی پسماندہ ہیں۔ زیادہ تر دیہات میں بجلی‘ گیس‘ پانی کی سہولت لوگوں کو میسر نہ ہے۔ لوگ بیرون پاکستان جاکر روزگار تلاش کرتے ہیں۔ اگر پاکستان میں روزگار کے مواقع موجود ہوں تو لوگ کبھی اپنے وطن کو چھوڑ کر باہر نہ جائیں۔ پاکستان کے گائوں کی حالت دیکھ کر ہر باشعور شہری کو سخت دکھ ہوتا ہے۔ عام لوگ جہالت اور غربت کے شکنجے میں کسے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیہی عوام کی زندگی کو بدلنے کیلئے حکومت نے آج تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ اس خطے کے چھوٹے چھوٹے ملک نیپال‘ بھوٹان‘ سکم اور سری لنکا تعلیمی میدان میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ بنگلہ دیش جو کبھی پاکستان کا حصہ ہوتا تھا‘ وہ آج پاکستان سے بہت آگے چلا گیا ہے۔ کیا کبھی کسی ملک یا قوم نے بامقصد تعلیم کے بغیر ترقی کی ہے؟ ایسے کبھی نہ ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسے نہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ سری لنکا میں شرح خواندگی 100 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کسی بھی ملک میں اس بات کا اندازہ سالانہ بجٹ سے لگایا جاتا ہے کہ وہ ملک کس قدر تعلیم کے فروغ میں سنجیدہ ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کے شعبہ میں بجٹ میں بہت کم رقوم رکھی جاتی ہیں۔ ہزاروں گائوں پاکستان میں موجود ہیں جہاں ابھی تک پرائمری سکول بھی نہ کھولے جا سکے ہیں۔ ایسے حالات میں قوم کے ہونہار بچے زندگی کے آغاز میں ہی تعلیم کی طرف راغب نہ ہوتے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق قوم کے 3 کروڑ کے لگ بھگ بچے گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرتے نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے حکومت پاکستان قوم کو بتائے کہ اس وقت کتنے فیصد بچے درسگاہوں کا رخ نہ کرتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یاد رکھی جائے کہ ’’بامقصد تعلیم کے بغیر پاکستان کبھی نہ کر سکے گا۔‘‘ یہ وقت ہے کہ پاکستان میں ایجوکیشنل ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے اور ایک ایسا قانون بنایا جائے جس کے تحت 4 سال سے اوپر عمر والے بچے لازمی طورپر سکولوں میںتعلیم کیلئے داخل ہونگے۔ والدین پر یہ قانونی طورپر لازم ہوگا کہ وہ اپنے چار سال سے اوپر عمر والے بچوں کو نزدیک ترین سکول میں داخل کرائیں گے جو والدین ایسا نہ کریں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ پہلی دفعہ ایسے قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے کی سزا ہوگی اور اگر پھر بھی والدین بچوں کو سکول داخل نہ کرائیں تو ان پر فوجداری مقدمات کی کارروائی کی دھمکی دی جائے گی۔ انشاء اللہ ایسا کرنے کی ہرگز ضرورت نہ پڑے گی۔ پاکستانی لوگ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیم بالغان کے مرکز لاکھوں کی تعدادمیں پورے پاکستان کے کونے کونے میں کھولے جائیں اور قانون کے مطابق تمام شہری درسگاہوں کا رخ کریں گے۔ پاکستان کی تمام جیلوں میں تمام قیدیوں پر لازم ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ جو قیدی اپنی قید کے دوران تعلیم حاصل کریںگے‘ ان کی سزائوں میں کمی کرنے کے قوانین بنائے جائیں ۔
جہالت اور گمراہی کے تاریک بادل پاکستان کے کونے کونے میں پھیل رہے ہیں۔ ہمارا پیارا وطن گندگی کے ڈھیروں میں اٹا پڑا ہرے۔ ان گندگی کے ڈھیروں پر مکھیوں اور مچھروں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ہم لوگ اپنے گھروں کو صاف کرکے ان کی تمام گندگی کو گھروں کے سامنے گلی کوچوں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہی تمام گلی کوچے بھی گھروں کی طرح ہمارے اپنے ہیں۔ گھر کی تمام گندگی کو ایک جگہ اکٹھا کرکے دور دراز بنائے گئے گہرے گڑھوں میں دفن کیا جائے۔ آجکل تو کوڑا کرکٹ اور گندگی سے توانائی بنائی جا رہی ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ جب تک ملک میں صفائی نہ ہوگی‘ اس وقت تک ہم وبائی امراض سے محفوظ نہ ہونگے۔ صفائی تو نصف ایمان ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم صاف نہیں تو ہمارا ایمان بھی پورا نہ ہوگا۔
دیکھیں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کس طرح اپنے ہاتھوں میں جھاڑو پکڑ کر صفائی کا درس پوری بھارتی قوم کو دیا ہے۔ بہت عرصہ پہلے کراچی شہرکو ہمارے بھائیوں نے صاف کیا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں اب وہ صفائی کا جھاڑو نظر نہ آتا۔ انہوں نے جھاڑو کے بجائے اپنے ہاتھوں میں بندوق کو پکڑ رکھا ہے۔ خدا کیلئے اس بندوق کو پھینک دو۔ آئو ہم سب مل کر بندوق کو چھوڑ کر جھاڑو پکڑیں اور پاکستان کو گندگی سے پاک و صاف کر ڈالیں۔ زندہ قومیں اسی طرح کیا کرتی ہیں۔ ہم بھی زندہ قوم ہیں۔ ہم ہر صورت میں زندگی کا ثبوت ہر میدان میں دیں گے۔ میں خود اپنا باتھ روم خوشی سے صاف کرتا ہوں۔ ہمارے پاس سوائے صفائی کے دنیا کی ہر دولت موجود ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اس صفائی کی دولت سے اپنے آپکو مالا مال کریں۔ گندگی کی طرح جہالت بھی ایک خطرناک گندگی اور کوڑھ کی بیماری ہے۔ جب جہالت کی گندگی کا خاتمہ ہوگا تو ہم سب دنیا کی اول درجے کی طاقتوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اپنے ہاتھوں میں جھاڑو پکڑ کر میاں نوازشریف جاتی عمرہ اور وزیراعظم ہائوس سے ملکی سطح پر صفائی کا آغاز کریں۔ اسی طرح عمر ان خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنے کی جگہوں سے صفائی مہم کا آغاز کریں۔ ’’گو ڈرٹ گو‘‘ کا نعرہ بھی لگائیں۔ اگر یہ دونوں حضرات اس طرح کا نعرہ لگاتے ہیں تو وہ میرے نزدیک ایک مقصد میں کامیاب تصور ہونگے۔ سنا گیا ہے دھرنے کی جگہ پر گندگی کے ڈھیر جمع ہو رہے ہیں۔ دھرنے میں شریک لوگ صبح کی نماز سے فارغ ہوکر خود اپنے ہاتھوں سے صفائی کیا کریں۔ اس کام کی نگرانی عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دونوں کریں گے تو ان کی دیکھا دیکھی ساری پاکستانی قوم صفائی کے مقدس کام پر لگ جائے گی۔پاکستان کا مطلب ہی صاف ستھری جگہ ہے۔ کیا ہم نے پاکستان کو صاف ستھرا رکھا ہوا ہے۔ مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا پیارا ملک دنیا میں صفائی کے لحاظ سے گندے ترین ملکوں میں شامل ہے۔ یہ ہم سب کیلئے باعث شرم ہے۔ کیا گندے کپڑوں اور گندے جسموں سے نماز کی ادائیگی جائز تصور ہوگی؟ دل‘ دماغ‘ پورا جسم‘ کپڑے جب تک صاف نہ ہونگے اس وقت ہماری عبادت کا کیا مطلب ہوگا؟ ہمارا ایمان نصف ہوگا۔ ہمیں اپنے مقدس ایمان کو پورا رکھنے کیلئے صفائی بھی پوری پوری کرنا ہوگی۔