تبدیلی کی خواہش اور کاوش انسانی فطرت کا بنیادی خاصہ ہے۔ کوئی ایک منظر خواہ وہ کتنا ہی جاذب نظر کیوں نہ ہو مسلسل دیکھنے سے دل اکتا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم کا المیہ یہ ہے کہ اسے آزادی کے بعد مسلسل مایوسیوں کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ہر ایک حکمران نے اسکے خوابوں کی تعبیر کا دعویٰ کیا مگر ہوس اقتدار نے ان تمام سیاسی اور عسکری حکمرانوں کو مصلحتوں کی بیڑیوں میں جکڑے رکھا۔ پاکستان کی قومی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سیاسی انقلاب کی نقیب کہلاتی ہے مگر وقت کیساتھ اسکے مقاصد اور ترجیحات میں بنیادی تبدیلیاں آچکی ہیں اور اسکی مقبولیت میں واضح کمی آچکی ہے۔ طالع آزمائوں نے بھٹو کی مقبولیت اور انکی ذہانت و قابلیت سے خائف ہوکر انہیں راستے سے ہٹانے کا جو منصوبہ بنایا وقتی طور پر اس میں کامیابی مل گئی اور پاکستان کے مقبول، عالمی شہرت کے حامل سیاستدان کو پھانسی پر لٹکا کر ایک عشرہ ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ نے ضیاء الحق کیساتھ مل کر حکومت بھی کی مگر ملک ہیروئن سے لیکر کلاشنکوف کلچر اور مذہبی فرقہ پرستی کے طوفانوں میں گِھر گیا۔ اسی دور میں بیرونی قرضوں کا آغاز ہواجو آج ملک کی بدحال معیشت کا سب سے بڑا سبب بن چکا ہے۔ اصولی سیاست کی بجائے اقتدار کی خیرات حاصل کرنیوالے موقع پرستوں نے مفاداتی سیاست کا کلچر عام کردیا۔ الغرض آج جب دنیا کے ہر خطے میں مثبت تبدیلی آرہی ہے، پوری دنیا میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن اقوام اور ممالک نت نئے پروگرام بنارہے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی خوشحالی کا شعور تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کو بھی جھنجھوڑ رہا ہے تو ایسے میں پاکستانی قوم بھی اگر وطن عزیز میں ’’تبدیلی‘‘ کے خواب دیکھ رہی ہے تو یہ اس کا پیدائشی اور فطری حق ہے۔ پاکستان تو بنا ہی ایک تبدیلی کیلئے تھا۔ مسلمان قوم برصغیر میں ہندوئوں کی دستِ نگر ہوچکی تھی لہذا اسے دو قومی نظریے کی شکل میں ایک منشور اور پاکستان کی شکل میں نئے ملک کا خواب دکھایا گیا جس کو قائداعظم جیسی دیانتدار اور زیرک قیادت نے حقیقت میں بدل دیا۔ اس وقت بھی اس تبدیلی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں، ہجرتیں ہوئیں، عزتیں لٹیں اور گھر بار چھوڑ کر لٹے پٹے قافلوں کو ناقابل بیان تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔
آج پاکستان بنانے والے انہی بزرگوں کی دوسری اور تیسری نسل نے شعور انقلاب حاصل کرلیا ہے۔ جو وعدے انکے بزرگوں نے قائدین تحریک پاکستان سے سنے تھے پاکستان کی مقتدر قیادت بدقسمتی سے ان میں کوئی ایک وعدہ بھی ایفا نہ کرسکی۔ وعدے وفا نہ بھی ہوتے، کم از کم ملک تو سلامت رہتا۔ ترقی کا سفر نہ بھی طے ہوتا لوگوں کی جان و مال تو محفوظ رہتی مگر یہ قومی المیہ ہے کہ ہر حکمران نے اقتدار میں آکر عوام کے مسائل سے رشتہ توڑ لیا۔ اس نے جوڑ توڑ کی سیاست کی۔ لوگوں کو خریدا، اپنے ضمیر کو بیچ کر دولت کی تجوریاں بھریں اور پھر اس دولت کو باہر منتقل کردیا۔ ملک میں مسائل کے انبار لگتے گئے۔ یہ توانائی کا بحران اچانک نہیں آیا، کالاباغ ڈیم جیسے قابل عمل اور مفید ترین قومی منصوبے پر سیاسی اور عسکری قیادت نے مصلحت پسندی سے کام نہ لیا ہوتا تو آج پاکستان کے گلی کوچوں پر اندھیروں کا راج نہ ہوتا۔ حکمران اپنی ذات اور اولاد کے حصار سے آزاد ہوکر ملک سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے تو بیرونی قرضے لیکر قوم کے بچے بچے کو غیروں کا غلام نہ بناتے۔
یہ تھے وہ حالات جن میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کے ذریعے تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ حکومت سمیت بہت سے لوگوں نے ان پر دل کھول کر تنقید کی دھرنوں کو غیر ملکی سازش قرار دیا مگر جو حقیقت ہے وہ سب پر عیاں ہے اور وہ ہے پاکستان کے عوام میں تبدیلی کی خواہش۔ اس نظام حکومت کی تبدیلی جس میں غریب غریب تر ہورہا ہے۔ جس میں دھن، دولت اور دھاندلی کے بغیر کوئی شریف شخص صوبائی اور قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس نظام حکومت کی تبدیلی جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں مگر انہیں رزق حلال کمانے کا موقع نہیں مل رہا۔ اس ملک کے کروڑوں انسان جوہڑوں سے گندا پانی پینے اور لاکھوں بچے بنیادی خوراک سے محرومی کا شکار ہوکر موت کو گلے لگانے پر مجبور ہوتے ہیں مگر وڈیروں اور سیاستدانوں کے محلات میں آج بھی گھوڑوں کی پرورش پر روزانہ لاکھوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں۔ اقتدار چونکہ انکی مشترکہ میراث ہے اس لئے ملک کا قانون بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ ماڈل ٹائون سانحہ میں رات کے پچھلے پہر پنجاب پولیس نے حملہ آور ہوکر 14 قیمتی جانوں کو تلف اور 85 لوگوں کو سیدھی گولیاں مار کر زخمی کردیا مگر اگلے دن ایف آئی آر قاتلوں کے بجائے مقتولین کے وراثاء کیخلاف کاٹی گئی۔ حکومت کے مقرر کردہ عدالتی ٹربیونل نے حکومت پنجاب کو ہی سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا مگر آج تک نہ کسی کیخلاف قانونی کاروائی ہوئی اور نہ قاتلوں کو سزا ملی۔ یہ حال تو ایک ملک گیر تحریک کے ساتھ کیا گیا۔ ہمارے ملک کے طول و ارض میں ہزاروں لاکھوں مظلوم و مقہور دن رات ظلم و جبر اور ناانصافی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انکی کوئی شنوائی اور داد رسی نہیں کی جاتی۔ PTI اور PAT کے 60روزہ تاریخی دھرنوں نے انہی حقائق کے پیش نظر لوگوں کے ذہن تبدیل کردیئے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جلسوں میں عوام کے امڈتے ہوئے ہجوم پاکستانی قوم میں تبدیلی کی اسی خواہش کے غماز ہیں۔ شریف برادران اور انکے خیر خواہ اس بات پر پریشان ہیں کہ اب تبدیلی کی اس ہوا کا سامنا کیسے کیا جائے۔ اعتزاز احسن نے اسی لئے انہیں عوامی اجتماعات میں جانے سے گریز کا ’’ہمدردانہ‘‘ مشورہ دیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب UNO میں خطاب کیلئے امریکہ جائیں یا امدادی سامان تقسیم کرنے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں ہر جگہ ’’گو نواز گو‘‘ کی آوازیں ان کا تعاقب کررہی ہیں۔ یہ نعرہ اب سرکاری ملازموں سمیت کسانوں، مزدوروں اور سوسائٹی کے دیگر طبقات کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ کیونکہ لوگوں نے گذشتہ تیس سال سے ان لوگوں کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں بھیجا مگر اکا دکا سڑکوں اور پلوں کے علاوہ ایسا کوئی کام نہیں ہوا جس سے غریب کے گھر کا چولہا جل سکے یا ملک کو اندھیروں سے نجات مل سکے، غریب کے بچے کو تعلیم اور صحت کی نعمت میسر ہو۔ پاکستان کے عوام پر دھرنوں کے قائدین نے روائتی نظام کو چیلنج کرکے یہ غیر معمولی احسان کیا ہے کہ انہیں کھوٹے کھرے کی تمیز سکھادی ہے اور جمہوریت کی حقیقت سمجھادی ہے۔ جمہوری حکومت کی ذمہ داریوں سے آگاہی دی ہے اب کسی شخص یا ادارے میں ہمت نہیں ہوگی کہ وہ انتخابی دھاندلی کا ارتکاب کرسکے۔ حکومتی ایوانوں کیلئے تبدیلی کے تعاقب اور انکی سماعتوں کیلئے گو نظام گو کا نعرہ تلخ سہی مگر یہ تبدیلی کی بہت واضح علامت ہے اور پاکستان کے مستقبل پر اسکے مثبت نتائج ضرور مرتب ہونگے۔