آج کل اخبارات ملتان کے ذکر سے بھرے ہوتے ہیں۔ میں نے پہلے جو بات اس حوالے سے کی تھی نجانے وہ ملتان کے حوالے سے تھی، سانحہ ملتان کے حوالے سے تھی یا عمران کے نمبر دو شاہ محمود قریشی ملتانی کی ’’شان‘‘ میں چند گذارشات تھیں؟ آج بھی کچھ ایسی ہی باتیں میرے دل میں ہیں۔ مگر اس سے پہلے ملتان میں قیام پذیر میانوالی کے ایک علمی ادبی انسان جناب قاسم خان کا تھوڑا سا ذکر کہ جنہوں نے غیرسیاسی مگر اپنی مستی میں زندگی گزاری۔ وہ اپنی تنہائی سے اپنی وابستگی کو وارفتگی بناتے رہے۔ وہ کتاب اور خواب کے آدمی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انقلاب پہلے انسان کے اندر آتا ہے اور ہم اسے اپنے باہر ڈھونڈ ڈھونڈکے تھک گئے ہیں۔ ان کا تعلق میانوالی کے ایک مشہور ریلوے سٹیشن کندیاں سے ہے۔ وہ معروف شاعر اور نقاد یحیٰی امجد کے بھائی ہیں، جو پہلے پہل امجد کندیانی کے نام سے معروف ہوئے۔ ایک چھوٹے سے قصبے کے ساتھ اپنی نسبت بنانا بڑے ظرف کی بات ہے۔ قاسم خان کی دو بہنیں بھی شاعرہ تھیں۔ ان کا کلام بھی مرتب کر کے قاسم خان نے شائع کرایا۔ ان کا سارا گھرانہ علمی و ادبی ذوق و شوق سے سجا ہوا ہے۔ قاسم خان نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتاب ’’تہذیب کا سفر‘‘ بہت مقبول ہوئی۔ تحقیقی مزاج کی کتاب کی مقبولیت قاسم خان کے دلچسپ اسلوب تحریر کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے پچیس تیس سال کا عرصہ بیرون ملک گزارا ہے۔ وہاں دوسری مصروفیات کے ساتھ تحقیق و تخلیق کے ساتھ ان کی دلچسپیاں بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ وہ بظاہر گمنام آدمی ہیں مگر انہیں گوشہ نشین کہنا زیادہ مناسب ہے۔ میرا خیال ہے کہ آدمی کو جو کچھ ملتا ہے تنہائی سے ملتا ہے۔ تنہائی کو دوست رکھنے والے دوست دار لوگ ہوتے ہیں۔ وہ عمران خان یا شاہ محمود قریشی کے جلسے میں نہیں گئے تھے مگر وہ اس جلسے کے سائیڈ افیکٹس کے طور ایک افسوسناک سانحے میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کے لئے تکلیف میں مبتلا ہوئے۔ وہ کینسر کے مریض ہیں۔ ان کی دردناک کیفیتوں میں اضافہ ہوا۔
ملتان میں صحافیوں نے عمران خان کو لاجواب کر دیا۔ عمران کی بجائے شاہ محمود ناراض ہو گئے۔ بلکہ برہم ہوئے۔ پھر درہم برہم ہوئے۔ انہوں نے صحافیوں کو حکم دیا کہ سوال کرو۔ یہ پریس کانفرنس ہے کوئی انکوائری ٹربیونل نہیں ہے۔ جو آدمی صحافیوں کی انکوائری سے ڈسٹرب ہو جائے وہ جوڈیشل انکوائری کا کیا مقابلہ کرے گا۔ ملتان میں ناراض کارکنوں نے عمران کی گاڑی روک لی۔ بالکل جاوید ہاشمی کی طرح جاوید کے سامنے گو نواز گو کے نعرے لگائے گئے۔ انہیں چاہئے تھا کہ یہاں ’’رو عمران رو‘‘ کے نعرے لگاتے۔ گو عمران گو کا نعرہ بے شک نہ لگاتے۔ یہ مقام رونے کا ہے۔ مگر جب عمران جا رہے تھے تو کئی کارکن فوت ہو چکے تھے۔ وہ چلے گئے۔ ایسی باتیں انہیں نہیں روک سکتیں۔ وہ ذاتی تبدیلی لانے کے لئے ثابت قدم ہیں۔ دوست مریں یا دشمن ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ ایک ’’انصافی کارکن‘‘ کہنے لگے وہ رک جاتے تو اگلے دن جنازے میں شریک ہو جاتے۔ لوگ انہیں اپنے دکھ میں شریک دیکھ کر اچھا محسوس کرتے۔ دوسرا کارکن کہنے لگا کہ جنازے میں عمران کے خلاف نعرے لگ جاتے۔ لوگ بہت رنجیدہ ہیں۔ ایک اجتماع میں شاہ محمود کے لئے قاتل قاتل کے نعرے لگ گئے۔ یہ بات اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا ذکر الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہوا ہے۔ جلسے میں جس بے حسی اور بے دردی کا مظاہرہ شاہ محمود نے کیا تھا اس کا ذکر میں پہلے کالم میں کر چکا ہوں۔
میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے کہ شاہ محمود کی تقریر کے دوران اونچی آواز میں بتایا گیا کہ دو کارکن بے ہوش ہو گئے ہیں تو شاہ محمود نے جوش خطابت میں کہا کہ ایسا ہوتا رہتا ہے ابھی ٹھہرو مجھے تقریر کرنے دو۔
ملتان کے لوگوں کے سامنے شاہ محمود کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ وہ بری طرح ایکسپوز ہو گئے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو ندامت ہو گی۔ شاہ محمود کسی آزاد امیدوار کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کی جیت سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جاوید ہاشمی ہار جائیں۔ میرے خیال میں جاوید ہاشمی کو الیکشن نہیں لڑنا چاہئے تھا۔ اب ان کی عمر اور صحت اجازت نہیں دیتی کہ وہ گندی سیاست میں خود کو مزید آلودہ کریں۔ ان کے حلقہ انتخاب میں ان کی گاڑی روک کے مخالفانہ نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے ہارنے کے چانس بھی ہیں۔ وہ جیت بھی گئے تو کیا ہو جائے گا۔ وہ بلاشبہ ایسے آدمی ہیں کہ ساری اسمبلی میں ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ انہیں اپنے آپ کو متنازع بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ جو باتیں وہ کر رہے ہیں ان کے شان شایاں نہیں ہیں۔
ملتان میں اب صورت حال تحریک انصاف کے لئے سازگار نہیں ہے۔ ملتان تحریک انصاف کے صدر اعجاز حسین جنجوعہ کے شاہ محمود سے بہت اختلافات ہو گئے ہیں۔ عمران خان کی پریس کانفرنس میں منتخب عہدیداروں کو مدعو نہیں کیا گیا۔ جنجوعہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ پریس کانفرنس ضلعی دفتر میں ہونا چاہئے تھی جبکہ شاہ محمود چاہتے تھے کہ ان کے محل میں ہو۔ ملتان میں جاگیردار بہت ہیں۔ عمران انہی لوگوں میں پھنسے رہے۔ ویسے بھی وہ منتخب عہدیداروں کو لفٹ نہیں کراتے۔ ملتان کے ایک ہارے ہوئے امیدوار کے گھر پر پریس کانفرنس مناسب بھی نہ تھی۔ بات اتنی تھی کہ گھر بہت بڑا ہے؟ عمران خان کو چھوٹے گھر ذاتی طور پر پسند نہیں ہیں۔ چھوٹے گھروں والوں کی باتیں تقریر میں مزا کرتی ہیں؟ ملتان میں جاں بحق ہونے والے جہانیاں کے نوجوان کی والدہ دہائیاں دے رہی تھیں۔ ’’پی ٹی آئی والو تہاڈا ککھ نہ رہوے‘‘ عمران نوجوانوں کی تعزیت کے لئے بھی نہ آئے۔ یہ شاہ محمود کا حلقہ انتخاب سے مگر وہ بھی نہیں پہنچے۔
پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان کارکنوں کو مرتا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا اعلان کرنے والے کو وی آئی پی طیارے نہ ملا تو وہ جنازے میں نہ آئے۔ پرویز رشید نے دلچسپ اور معنی خیز جملہ کہا ہے کہ عمران سیاست میں بھی بال ٹمپرنگ کرنے لگے ہیں۔ انقلاب کے بعد انتخاب کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت سنجیدہ ہو تو ہم استعفیٰ کا معاملہ الگ رکھ کر بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔ یہ تیاریاں انتخاب کے لئے ہیں۔ طاہرالقادری نے فیصل آباد میں کہا کہ عوام نوٹ اور ووٹ دیں تو انقلاب لے آئوں گا۔ شاہ محمود بتائیں کہ وہ طاہرالقادری کے ساتھ ہیں یا عمران خان کے ساتھ ہیں یا صرف اپنے ساتھ ہیں؟