اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ای او بی آئی میں 18 جائیدادوں میں ٹوٹل 40 ارب کی کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی ضمانتیں منسوخ کردی ہیں۔ عدالت نے وفاق کی درخواست پر ایک مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور چھ مقدمات لاہور ہائی کورٹ بھجوا دیئے ہیں اور ہدایات دیں کہ ملزم کے خلاف مقدمات کی میرٹ پر سماعت کیلئے دوسرے ججز مقرر کئے جائیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں ملزم کی ضمانتیں میرٹ پر نہیں لگتیں ہائی کورٹ کے ججز نے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے حدود سے تجاوز کرکے ضمانیتں دیں میگا سکینڈل میں ملوث مرکزی ملزم کی ضمانت کس طرح ہوسکتی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ظفر اقبال گوندل پرکروڑوں کی کرپشن کا الزام ہے اور ملزم پر 13مقدمات درج ہیں لاہور ہائی کورٹ نے 6 جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک مقدمے میں ملزم کو ضمانتیں دی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے آزادانہ تحقیقات میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد بلیو ایریا کرائون پلازہ سمیت ای او بی آئی کی بارہ جائیدادیں غیر شفاف انداز میں خریدی گئیں، صرف کرائون پلازہ خریداری میں 43 کروڑ روپے کی کرپشن ہوئی، معاہدے کے وقت 70فیصد رقم ادا کردی گئی، نیسپاک نے کرائون پلازہ کا تخمینہ 60 کروڑ تک لگایا تھا سابق چیئرمین نے یہ جائیدادیں بورڈ کی اجازت لئے بغیر خریدیں، 50کروڑ سے اوپر کی خریداری کے لئے 1977،1979 رولز 6 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ملزم کے وکیل نے کہا کہ تمام ضمانتیں میرٹ پر ہوئی ہیں تمام معاہدوں میں بورڈ کی منظوری لی گئی اور معاہدوں کی رقم واپس کردی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ ضمانتوں کی تاریخ اور کس بنیاد پر ہوئیں تفصیلات بتائیں؟ ضمانتیں دیتے ہوئے گواہوں کے بیانات، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ کو مسترد کرتے ہوئے بطور ثبوت شامل نہیں کیا گیا،جبکہ 18معاہدوں میں سے صرف چکوال، ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی، چکوال اور سکھر کی پراپرٹیوں کی رقم واپس آئی ہے، آپ عدالت میں غلط بیانی نہ کریں، وائٹ کالر کرائم کا کوئی گواہ نہیں ہوتا۔ ڈپٹی اٹارنی نے کہا کہ ضمانتوں کے تمام آرڈرز ایک جیسے ہیں۔