ہم جیسے کروڑوں ہم وطن اپنے ملک کی پسماندگی پہ نجانے کیوں کڑھتے رہتے ہیں حالانکہ جہالت اور صرف جہالت ہی ہماری تنزلی کی بنیاد ہے۔ دنیا پہ حکمرانی کرنےوالے ممالک امریکہ، انگلینڈ، فرانس، چین اور روس کی شرح خواندگی کم سے کم 95فیصد سے شروع ہوتی ہے، کوہ قاف کے دور دراز دیس والا اس معاملے میں جناتی کرشمہ ساز ثابت ہوا ہے کیونکہ وہاں کا کاشتکار، لوہار اور ترکھان بھی تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ وہاں موجود ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدان قول وفعل کے تضاد کا منافقت کی حد تک شکار ہیں۔ اپنے وعدوں کا ایفا نہیں کرتے۔ اپنے منشور کو منسوخ کیے بغیر اقتدار سنبھالنے پر مشرفانہ یو ٹرن لیکر انحراف حلف کے مجرم بن جاتے ہیں، زمین مردہ ہو جائے تو وہاں ہریالی نہیں ہوتی، ضمیر مردہ ہو جاتے تو برکات فیوض کا نزول رک جاتا ہے۔ ہمارا ایک سیاستدان جس کی عاملی اور خیالی زندگی اور نظریات سے اسکا اپنا خاندان متفق نہیں۔ وہ اس بنا اور اس نعرے کی بنیاد پر اقتدار میں آیا کہ پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کا سلیبس ایک نہیں ہو جاتا اور امیروں اور ٹاٹ پر بیٹھنے والے سکولوں کے طالب علم ایک جیسی تعلیم حاصل نہیں کرتے، اس بات پر مجھ جیسے لاکھوں لوگ انکے گرویدہ اور خواتین فریفتہ ہوگئیں، پچھلے دنوں ڈاکٹر امجد ثاقب کی طرف سے مجھے ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کی تقریب میں شرکت کا فون اور دعوت نامہ وصول ہوا تو معاً میرا خیال اس صوبے کی طرف چلا گیا کہ جو یکساں تعلیم کے نام پہ صوبے میں اور اب اللہ کے نام پہ وفاق پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں، خبط فرمان ہے کہ میں 2018ءتک انتظار نہیں کر سکتا، ان حقیقتوں کو جاننے کے بعد میں نے زمینی حقائق جاننے کیلئے خیبرپختونخواہ میں مقیم اپنے بھائی سے رابطہ کیا کہ آپ یہ معلوم کریں کہ وہاں نظام تعلیم میں کیا تبدیلی آئی ہے انہوں نے پوری تحقیق کے بعد اطلاع دی کہ وہاں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ اب بھی وہاں امیروں کا سلیبس اور غریبوں کا سلیبس اور ہے، جہاں صوبے کا وزیراعلیٰ باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے کم پڑھا لکھا ہے اور ایسی عادت کا شکار ہے جو دوسرے کسی وزیراعلیٰ میں نہیں، حضور کا فرمان ہے کہ تم ایسی بات کہتے کیوں ہو خود جو کرتے نہیں ہو۔تعلیمی اصلاحات کا کوئی دعویٰ شہباز شریف نے نہیں کیا تھا مگر پڑھا لکھا پنجاب ان کا خواب ضرور ہے۔ اس مرتبہ تو تقریب میں خواہش کے باوجود اپنی ”فنی خرابی“ آپریشن کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کر سکا، مگر گزشتہ تقریبات میں شرکت کرتا رہا ہوں بلکہ میں اور برادرم اجمل نیازی وزیراعلیٰ کی اعلیٰ ظرفی کی وجہ سے طلباءمیں انعامات بھی تقسیم کر چکے ہیں۔یہ عقدہ ابھی تک حل ہونے کی بجائے معمہ بنا ہوا ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے شہباز شریف کو تعلیم عام کرنے اور طلباءمیں آسانیاں بانٹنے کیلئے قائل کیا یا شہ باز کی زیرک اور دور بینی نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو ڈھونڈ نکالا، خیر یہ خیال اور سوچ عقلمندانہ نہیں کیونکہ اب ان دونوں کا ساتھ بقول استاد دامن الجبرا اور جیومیٹری والا یعنی لازم ملزوم بن کر رہ گیا ہے کیونکہ دونوں سمجھتے ہیں بقول علامہ اقبال:۔
چمن میں تربیت غنچہ ہو نہیں سکتی
نہیں ہے قطرہ شبنم اگر شریک نسیم
اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ میرٹ پہ وظائف حاصل کر کے ذہین و فطین طالب علموں کی محنت یہ رنگ لائی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح طبقاتی کشمکش اور ناہمواریاں دم توڑتی نظر آتی ہیں وہاں بھی کسان، بڑھی یا مزدور کا بچہ حکمران بن سکتا ہے اور عرب ممالک میں بھی کم تر پیشوں کا بھی بہت احترام کیا جاتا ہے۔ وہاں کا بادشاہ یا وزیر بھی کھانے میں مالی یا مزدور کو بھی شامل کرلیتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایک بات مشترک ہے کہ وہاں ذرائع نقل وحمل اور شرح خواندگی عروج پہ پہنچی ہوتی ہے۔ ہمارے رب نے تو اپنے نبی آخر زمان کو سب سے پہلا درس اور وحی کی ابتداء”اقرا“ سے کی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ، ڈاکٹر آصف جاہ کی طرح میرے محسن ہیں، جن سے دوستی کی ابتداءاپنی انتہا کو اس لئے پہنچی کہ بغیر واقفیت کے میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو ایک غریب منشی کی بیوی کی تعلیم کیلئے فون کیا، انہوں نے پچاس ہزار کا ادھار دیا، اب وہ پی ایچ ڈی کر کے پروفیسر لگ گئی ہے۔ اب میں ڈاکٹر امجد صاحب کے پورے خاندان بلکہ ہمسایوں کو بھی جانتا ہوں شہباز شریف کی طرح ڈاکٹر امجد اس مقام تک اپنے والد مرحوم و مغفور کی دعاﺅں سے پہنچے ہیں، میری خوش بختی ہے کہ میں ان کو بھی جانتا ہوں شہباز شریف کہتے ہیں کہ ڈاکٹر امجد ولی اللہ ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے راز فاش کردیا، حضور نے تو فرمایا تھا کہ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کیا کرو کیونکہ آسانیاں پیدا کرنے والا ہر شخص اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ نبی اپنی کوئی میراث نہیں چھوڑتا، سوائے علم کے، اس میراث میں ہر مسلمان کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میراث کو ڈاکٹر ثاقب اور شہباز شریف دونوں ہاتھوں سے لیکر غریبوں اور مسکینوں تک دل بھر کر پہنچا رہے ہیں، آئندہ سال دو لاکھ کوئٹہ سے کراچی اور گلگت سے فاٹا تک کے طلباءکو وظائف دینگے اور فنڈ کی رقم بھی بڑھا دی ہے، وظائف کی یہ رقم جنوبی ایشیاءمیں ایک ریکارڈ ہے اور دونوں کا یہ عزم ہے کہ ہر بچے اور بچی کو تعلیم یافتہ بنائیں گے۔ ہماری دعا ہاتھ اور جھولی پھیلا کر اور اللہ کوگواہ بنا کر فاٹا اور سوات کے طلباءکے غریب والدین کی طرح دل سے نکلتی ہے کہ غریبوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والوں کیلئے اللہ تعالی مزید آسانیاں پیدا کرے اور پروردگار ہم سب کا علم بڑھائے۔