بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ گزشتہ 70 برس کے دوران پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اس دورانیہ میں اپنی شہ رگ کو دشمنوں کے پنجوں سے آزاد کرانے کیلئے عملی سطح پر جو اقدامات کئے ہیں اور اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی میں اس مقصد کے حصول کیلئے جو ترجیحی اقداما ت کئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دنیا کے عوام اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ آج 7 لاکھ سے اوپر تعداد میں بھارتی فو جی ہماری شہ رگ پر عوام کی خواہشات کے برخلاف کشمیر پر فوجی قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ کسی ملک کی پوری آبادی کے ہر خاندان پر قابض فوجی اپنی سنگینوں اور گولیوں سے چو بیس گھنٹے پنجے گاڑھے ہوں جہاں طویل عرصہ سے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی فوج کے ساتھ مل کر اوڑی کے محاذ پر پاکستانی فوج کیخلا ف سرجیکل سٹرائیک کا جو جھوٹا اور بدبُودار ڈرامہ رچایا ہے اُس کا پول پوری دنیا کے سامنے کھل چکا ہے۔ نریندر مودی کا خیال تھا کہ بھارتی اشتعال انگیزی پر پاکستان بھرپور فوجی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کیخلاف بڑے پیمانے کی فوجی کارروائی کیلئے جوش کا مظاہرہ کر تے ہوئے اپنا فوجی توازن کھو بیٹھے گا اور بھارت کی طر ف سے بڑے پیمانے کی فوجی کارروائی روکنے کیلئے مغر بی محاذ سے اپنی افواج کو مشرقی محاذ پر لاتے ہوئے اپنا فوجی توازن خطرہ میں ڈال دیگا جس سے بھارت فوجی اور سیا سی طور پر بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر یگا لیکن پاکستان نے مقامی سطح پر بھرپور کارروائی کرتے ہوئے دنیا کے سامنے بھارتی منصوبہ کو اس طرح سے ننگا کیا کہ اب وہ اپنا منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ اس طرح پاکستان کی فوجی قیادت نے انتہائی بصیرت، تحمل اور سٹریٹجک دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورتحال کو مکمل طور پر کنٹرول کر لیا ہے لیکن بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ظالمانہ اور سفاکانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس کی تفصیلات سے قارئین پوری طرح آ گاہ ہیں۔ آج کے کالم کا بنیادی مقصد حکومت ِ پاکستان کی توجہ اُن اقدامات کی طرف مبذول کروانا ہے جن پر عملدرآمد سے بھارت کا کشمیریوں کو اُن کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطا بق حقِ خود ارادیت کے حصول کی طرف پیشقدمی کرنا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کا رویہ اختیار کئے ہوئے اُس اندا ز میں حکو مت کی اندرونی و بیرونی پالیسیوں میں وہ انداز اختیار نہیں کیا جا رہا جو اپنی شہ رگ کی حفاظت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلا س میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو بیدار کر نے کیلئے بھرپور انداز میں آواز اٹھائی ہے لیکن اسکے ساتھ ہی عملی سطح پر بہت سے ضروری اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ایک عر صہ سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بیدار کرنے کے ساتھ سا تھ اندرونی سطح پر بھی مناسب اقدامات اُٹھانے کیلئے قومی اسمبلی کی ایک نہایت اہم کشمیر کمیٹی قائم کر رکھی ہے جس کی قیادت ملک کی اہم سیاسی شخصیات کے سپرد کی جاتی رہی ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی کی حکومت اور موجودہ دور میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دورانیہ میں مولانا فضل الرحمن قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اس کمیٹی کی کارکردگی کا اگر قومی اسمبلی جائزہ لینے کی زحمت گواراکرے تو حقیقت حال پوری قوم کے سامنے آ جائیگی۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے ہرگھڑی بیدار میڈیا نے بھی اس کمیٹی کی فرض شناسی کے بارے میں کوئی تنقیدی جائزہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی ماضی یا موجودہ حکومتوں نے اس طرف کوئی توجہ دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت موجودہ چئیرمین کشمیر کمیٹی کے کردار سے مطمئن ہے حالانکہ رائے عامہ اس بارے میں کچھ اور رائے رکھتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس کمیٹی کا گزشتہ کئی سالوں سے کردار دیکھ کر وقت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم اور اُنکی کابینہ موجودہ کشمیر کمیٹی کی افادیت پر غور فرما کر رائے عامہ کی خواہشات کیمطابق ضروری اقدامات کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں Human Rights Violation کے بارے میں اکثر ذکر ہوتا رہتا ہے لیکن عالمی سطح پر ان مظالم کیخلاف کوئی مؤثر آواز اٹھائی نہیں جا رہی۔ عوام کی آنکھوں کو اندھا کر نے والی گولیوں کی بوچھاڑ ایک ایسا وحشیانہ فعل ہے جو Internation Criminal Court میں فوری طور پر اُٹھانا چاہیے یہ عدالت اقوام متحدہ نے2004ء میں قائم کی تھی لیکن حیرت ہے کہ پاکستان نے اس کی طرف رجو ع نہیں کیا۔ انسانی حقوق کو مقبوضہ کشمیر میں پاؤں تلے روندنے کے واقعات کی اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق 93,801 کشمیری گولیوں کا نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔1,20,392 آج بھی حراست میں ہیں اور 10,042 خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا ہے۔ یہ کیسا انصا ف ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے محافظ ادارے ان مظالم پر خاموش ہیں۔ یہ کیسا طرفہ تماشہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم اور اُنکی وزیر خارجہ و بھارتی میڈیا پوری ریاست جموں و کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتے رہتے ہیں جبکہ سکیورٹی کونسل کی اپنی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر اُس کی قراردادوں پر عمل نہ ہونے کی فہرست میں شامل ہے۔ سکیورٹی کونسل کی قرارداد 21 اپریل 1948ء کے مطابق قرار دیا گیا تھا کہ کشمیر کے لوگوں کی حق خود ارادیت کا فیصلہ کر نے کیلئے وہاں Plebiscite منعقد کیا جائے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث اس قرارداد پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ کوئی عقل کا اندھا ہی ان قرار دادوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے سکتا ہے۔ پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے اور وہاں کے عوام کی رائے کے مطابق فیصلہ کے بعد ان علا قوں کو پاکستان میں شامل کرے تاوقتیکہ جب تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔