30اکتوبر کو عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی کے بعد سیاسی پارہ ایک بار پھر چڑھنے لگا ہے۔ 30اکتوبر کو کیا ہوتا ہے، اسلام آباد بند ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن 30اکتوبر والے اعلان کے بعد بھی حکومتی حلقوں میں اطمینان اور سکون ہے، کوئی بے چینی اور افراتفری نہیں پائی جاتی۔ اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور سینئر مسلم لیگی رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خاں کی جانب سے جو مؤقف سامنے آیا ہے اُس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف حکومت پی ٹی آئی کی اس یلغار سے قطعی خوفزدہ نہیں۔ حکومت نے 30اکتوبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی آمد روکنے کے لیے کیا حکمت عملی تیار کی ہے اس کا عندیہ تو نہیں دیا گیا لیکن وفاقی وزارت داخلہ اس ’’ایشو‘‘ کو لے کر ایک خصوصی اجلاس ضرور منعقد کر چکی ہے۔ وزیر داخلہ کا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی مسلسل رابطہ ہے اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی سے نمٹنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور مکمل کر لیا گیا ہے۔ 30اکتوبر سے دو روز قبل وفاقی پویس کے علاوہ پنجاب بھر سے پولیس اور رینجرز کو اسلام آباد طلب کیا جائے گا تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹا جا سکے۔عمران خان اس بار ایک مصمم ارادے کے ساتھ ایک بڑے مجمع کو لیکر اسلام آباد میں داخل ہونے کا ارارہ رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ 30اکتوبر کے بعد نواز شریف حکومت کو نہیں چلنے دیں گے۔ اپنے اس اقدام میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا انحصار پی ٹی آئی کی اُس حکمت عملی پر ہو گا جس کا اظہار ابھی تک عمران خان نے قوم یا میڈیا کے سامنے نہیں کیا۔ 30اکتوبر کو اتوار کا دن ہو گا۔ اتوار کو ویسے بھی سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ دفاتر، بازار، سکول، کالج اور مارکیٹیں بند ہوتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ بھی معمول سے کم سڑکوں پر دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں کیسے اندازہ لگایا جاسکے گا کہ عمران خان اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کا اظہار وہ بار بار اپنی مختلف پارٹی میٹنگز اور میڈیا ٹاک میں کر چکے ہیں۔پُرامن احتجاج ہر سیاسی پارٹی کا جمہوری اور آئینی حق ہے لیکن یہ حق کسی بھی پارٹی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ احتجاج کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ آپ زندگی کا پہیہ جام کر دیں۔ٹرانسپورٹ چلانے اور دکانیں کھولنے والوں کو ڈرائیں، دھمکائیں۔ عمران خان پاناما پیپرز کو لے کر بالکل وہی راستہ اختیار کر رہے ہیں جو اس سے قبل ایم کیو ایم نے کراچی میں اختیار کئے رکھا۔ دھونس اور خوف کی بنیاد پر بیسیوں بار کراچی کی زندگی میں خلل ڈالا۔ نہ صرف کاروبار کا پہیہ جام کیا بلکہ خوف کی ایسی فضا بھی قائم کی کہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے ہی کانپتے تھے۔عمران خان 30اکتوبر کو ہونیوالے احتجاج کی آڑ میں یہ سخت مؤقف اختیار کئے ہوئے ہیں کہ چونکہ پاناما لیکس کے حوالے سے اُنکی کسی فورم پر شنوائی نہیں ہوئی اس لیے وہ مجبور ہو کر یہ راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ یعنی 30اکتوبر کو وہ اسلام آبادکو بند کر کے حکومت کو مفلوج کر دیں گے۔ کیا یہ درست رویہ ہے؟ آئین عمران خان کو پُرامن احتجاج کا اختیار تو دیتا ہے لیکن کسی شہر کو بند کرنے کا آئینی و قانونی اختیار انہیں کیا، کسی کو بھی حاصل نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان جو ہمیشہ آئین اور انصا ف کی بات کرتے رہے ہی وہ خود آئین سے تجاوز کریں گے۔ لہٰذا حکومت کو ہی یہ آئینی و قانونی اختیار ہو گا کہ وہ اس قسم کے غیر آئینی احتجاج کو روکنے کے لیے آئین کا ہر ممکن استعمال کرے چاہے اسکے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ یہ دیکھنا آئینی اداروں کاکام اور ذمہ داری ہے ۔ سپریم کورٹ کو بھی عمران خان کے اسلام آباد کو’’ بند‘‘ کرنے کے اعلان کا ازخود نوٹس لینا چاہیے تاکہ اسلام آبادمیں، جو پاکستان کا دارالخلافہ ہے کوئی ماورائے آئین کام نہ ہو۔وفاقی حکومت کے بعض وزراء کا کہنا ہے کہ عمران خان 30اکتوبر کو اسلام آباد میں خون خرابہ چاہتے ہیں تاکہ حالات خراب ہوں اور لاشوں کی سیاست کر کے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو جائے۔ عمران خان کے نزدیک شاید یہی وہ واحد راستہ ہے جو انہیں اقتدار میں لا سکتا ہے؟
مگر کیسے؟ اس پر کافی ابہام ہے۔ آئین نے اقتدار میں آنے کا ایک راستہ اور طریقۂ کار وضع کر رکھا ہے۔ اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی مسندِ اقتدار پر براجمان ہو جائے۔ عمران خان کو حکومت کی رخصتی کی اس لیے بھی جلدی ہے کہ نواز شریف 2018ء میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سمیت سی پیک اور بہت سے ترقیاتی منصوبے لے کر آ رہے ہیں۔ یہ سب ترقیاتی منصوبے او ر پروگرام پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں اور خوشحالی کا ایک نیا دور پاکستان میں آتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ 2018ء کا الیکشن مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کوئی اور سیاسی جماعت جیت سکے۔ اس لیے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو خوف اور خطرہ ہے کہ نواز شریف کو سی پیک سمیت کسی بھی پروگرام یا منصوبے میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے ۔ اس لیے افراتفری کا یہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ جس کا نوٹس حکومت کو تو لینا ہی چاہیے ۔ سپریم کورٹ اور دیگر ادارے بھی پیچھے نہ رہیں کہ پاکستان کو خوشحالی کے اس نئے دور میں داخل ہونے کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ پاناما لیکس کی تحقیقات ضرور ہوں اس کے لیے تحریک بھی چلے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن کسی شہر کو بند کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔