پاکستان کے ذمہ قرضوں کا بوجھ”ایمر جنگ مارکیٹ“ کی اوسط سے بڑھ گیا

Oct 14, 2016

اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان کے ذمہ پبلک ڈیٹ کا بوجھ ”ایمرجنگ مارکیٹ“ کے لئے تسلیم شدہ اوسط سے بڑھ گیا۔قرضوں کاحجم جی ڈی پی کے 65 فیصد کے مساوی ہو گیا۔ پاکستان کے ذمہ عالمی مالیاتی ادارے کے قرضے منظور شدہ کوٹہ سے بہت زیادہ ہے اس لئے قرضہ پروگرام کے بعد بھی آئی ایم ایف کی مانیٹرنگ جاری رہے گی۔ فیسکو شیئرز فروری میں بکیں گے جبکہ پی آئی اے کے محدود شیئرز کی فروخت کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ کا عمل آئندہ سال اگست تک مکمل کر لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے قرضہ پروگرام کی آخری ریویو کا ”ایل او آئی“ جاری کردیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پروگرام کے بعد بھی پاکستان کے لئے نمایاں چیلنج برقرار رہیں گے۔ ملک میں نمایاں طورپر قرضوں کا بوجھ ہے اور اس کے دیکھتے ہوئے مالیاتی خسارہ مزید کم کرنے کا حکومت کا عزم خوش آئند ہے۔ پاور سیکٹر کی اصلاحات کی تکمیل اس سیکٹر کے مضبوط کرنے میں اہمیت کی حامل ہوں گی۔ پروگرام کی تکمیل کے آخری ریویو میں بجٹ خسارہ اور ڈومیسٹک ایسٹس کے اہداف کچھ حد تک پورے نہیں کئے جا سکے۔ پاکستان کی رواں مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ کی شرح 4.7 فیصد رہے گی جبکہ توانائی آف سبسڈیز میں جی ڈی پی اوسط ڈیڑھ فیصد کے مساوی کمی لائی گئی۔ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کے عرصہ میں پبلک ڈیٹ میں جی ڈی پی کے اڑھائی فیصد کے مساوی اضافہ ہو گیا۔ قرضے جی ڈی پی کے 65 فیصدکے برابر ہیں قرضوںکا بوجھ ”ایمر جنگ مارکیٹ“ اوسط سے بھی زیادہ ہیں۔ پاکستان کو اضافی ریونیو سے حصول کی ضرورت ہے تاکہ مالی استحکام میں مدد مل سکے اور گروتھ میں اضافہ کے لئے اخراجات اخراجات کی گنجائش حاصل ہوسکے۔ مالی خسارہ کا ہدف 57 بلین روپے کے زائد اخراجات کے باعث حاصل نہیں ہوا۔ پروگرام کے عرصہ میں ٹیکس رعایات جو جی ڈی پی کے 2 فیصد کے مساوی تھی جو اب 1.3 فیصد میں ہو گئی ہیں۔ توانائی کی سبسڈیز جی ڈی پی کے 2 فیصد سے کم کر کے 0.6 فیصد ہو گئیں ڈسکوز کے نقصانات 18.9 فیصد سے کم کر کے 17.9 فیصد ہوئے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا کہ مالی خسارہ کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے حکومتی اخراجات میں جی ڈی پی کے 0.3 فیصد کے مساوی مزید کمی لائے گی۔ ایف بی آر کے ذمہ ری فنڈ کلیمز205 بلین روپے تک ہو گئے۔ جی ایس ٹی کے ری فنڈ 89 بلین سے بڑھ کر 133 بلین روپے ہو گئے۔ پی آئی اے کے محدود شیئرز کی فروخت کے لئے ٹرانزیکشن کے ڈھانچہ کو 2016ءکے اختتام سے قبل حتمی شکل دی جائے گی جبکہ بولی کا عمل اگست 2017ءتک مکمل کیا جائے گا جبکہ سٹیل ملز کے ٹرانزیکشن جون 2017ءسے قبل مکمل کر لی جائے گی۔ کیسپکو کی فروخت مارچ 2017ءتک مکمل کی جائے گی۔ فیسکو کا آئی پی او فروری 2017ءمیں ہو گا جبکہ اس کے بعد آئیسکو اور لیسکو کے آئی پی اوز ہوں گے۔ ان آئی پی اوز سے جو رقوم ملیں گی وہ بقایاجات کے حجم میں کمی لانے کے سئے استعمال کی جائے گی۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ وعدہ بھی کیاکہ 2016-17ءکے لئے گیس ٹیرف کا نوٹیفکیشن اکتوبر میں جاری کر دیا جائے گا۔ پاکستان نے اگرچہ فنڈ کوبتایا ہے کہ وہ ای ایف ایف کے بعد مزید پروگرام کا خواہاں نہیں ہے لیکن چونکہ پاکستان کے ذمہ ادارے کا قرضہ کوٹہ سے 200 فیصد زائد ہو چکا ہے اس لئے پاکستان ”پوسٹ پروگرامز مانیٹرنگ“ جاری رکھے گا آئی ایم ایف کی ٹیمیں آرٹیکل iv مشاورت اور مانیٹرنگ کے لئے آتی رہیں گی۔ ملک کے اندر بے روزگاری کی شرح 6 فیصد اور غربت کا شکار آبادی 30 فیصد ہے سی پیک کے تحت ”جلد مکمل“ کرنے کی ترجیح کے ساتھ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں 9 ارب 33 کروڑ ڈالر کے منصوبے ہیں۔ اس رقم میں سے 6.4 ارب ڈالر کے رعایتی قرضے اور 1.6 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے شامل ہیں۔ سی پیک جیسا کہ اس کے بارے میں تصور کیاگیا ہے اگر مکمل ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی صلاحیت بے حد بڑھے گی۔ حکومت نے ٹیکس کی بنیاد کووسیع کرنے کے لئے 3 لاکھ نوٹس بھیجے اور ٹیکس فائلرز کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ توانائی کے سبسڈیز میں مزید کم کر کے جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے مساوی لایا جائے گا۔

مزیدخبریں