پاکستان کو حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی پولیس مسلمان ڈی ایس پی کو معطل کردیا گیا, ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تنویر احمد پر پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطے کا الزام ہے ,معطل ڈی ایس پی کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئیں ۔ تفصیلات کے مطابق مودی سرکار میں مسلمان ہونا بھی ایک جرم بن گیا ہے اورمسلمانوں کے خلاف آئے دن نفرت پر مبنی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں اس کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں مسلمان پولیس افسر کو پاکستان کو حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں معطل کردیا گیا ۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تنویر احمد پر الزام ہے کہ ان کے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطے تھے اور انہوں نے وادی میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے حساس اطلاعات فراہم کیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈائریکٹر جنرل پولیس راجندر کمار نے بھارتی وزارتِ داخلہ کی جانب سے ملنے والی اطلاعات پر ڈی ایس پی آرمڈ پولیس کنٹرول روم تنویر احمد کو پاکستانیوں سے رابطوں کے شبے میں معطل کیا اور معاملے کی مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔ تنویر احمد کا موقف ہے کہ ایک مہینہ پہلے اسے کنٹرول روم میں کال موصول ہوئی اور کال کرنے والے نے اپنا تعارف آرمی کمانڈر کے طور پر کروایا اور مقبوضہ کشمیر میں پولیس اور فوج کے دستوں کی تعیناتی سے متعلق تفصیلات طلب کیں۔ مگر تنویر احمد نے یہ معلومات فراہم کرنے سے پہلے اپنے نگران سپرنٹنڈنٹ پولیس سے اجازت حاصل کی۔ اس کارروائی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت کے نزدیک ہندوستان میں رہنے والا ہر مسلمان مشکوک ہے چاہے اس کا تعلق کسی اعلی سرکاری ملازمت ہی سے کیوں نہ ہو اور چاہے وہ صرف نام کا مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق، ڈی ایس پی تنویر نے یہ معلومات واٹس ایپ کے ذریعے فراہم کیں۔ بعد ازاں ہندوستان کی وزارتِ داخلہ نے مبینہ تفتیش کے بعد دعوی کیا کہ یہ کال سرحد پار سے آئی تھی اور واقعے کی مزید چھان بین کےلئے مقبوضہ کشمیر میں ڈائریکٹر جنرل پولیس کو احکامات جاری کئے۔