پٹرولیم مصنوعات اور معیشت

پاکستان کے درآمدی بل کا سب سے یادہ بوجھ پیٹرولیم مصنوعات کا ہے جوکہ ہمارے درآمدی بل کا تقریباً بیس فیصد بنتا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس درآمدی بل کو کم کرنے کے اقدامات کبھی بھی نہیں اٹھائے گئے۔ مالی سال 2013-14 میں پیٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل 14.7ارب ڈالرز تھا، مالی سال 2014-15میں 12.3ارب ڈالرز ہوا ،2015-16میں 8.3ارب ڈالرز ہوا اور مالی سال2016-17میں 10.6ارب ڈالرز ہوا ہے حالانکہ بین الاقوامی پیٹرولیم مارکیٹ میں تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی157 ڈالرز فی بیرل سے گراوٹ کی سلسلہ بدستور جاری رہا ہے اور جنوری2016میں 24.49ڈالرز فی بیرل کی سطح تک پہنچ گیا تھا یعنی ہم اگربین الاقوامی مارکیٹ میںپیٹرولیم کی گرتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ اٹھاتے تو اپنے پیٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل کوکم از کم آدھا کرسکتے تھے مگر ہماری ناقص پالیسیوں کے بدولت ہم ایسا کرنے سے قاصر رہے ۔اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فائدہ عام عوام کو خاطر خوا ہ نہیں پہنچایا گیا جس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جون 2008 میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمتیں 157ڈالرزفی بیرل تھیں اس وقت ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمت تقریباً 118.2 روپے اور ڈیزل کی قیمت 131.6روپے تھیں پھر مئی 2013میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمت 96.89ڈالرز فی بیرل کی سطح پر آگئی یعنی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 60فیصد کی کمی واقع ہوئی مگر اس وقت پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 102روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 108روپے فی لیٹر تھی یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب صرف16فیصداور 23فیصد کی کمی آئی تھی۔اسکے بعد جنوری 2016میں جب بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 29.49ڈالرز فی بیرل پر پہنچی تھیں یعنی مئی 2013کے تناسب سے قیمتوں میں 70فیصد کی مزید کمی ہوئی تھی پر اس وقت بھی پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 76.25 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 75.79روپے فی لیٹر مقرر تھی یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں صرف بالترتیب 25فیصداور 29فیصد کے حساب سے کمی کی گئی تھی یعنی بین الاقوامی مارکیٹ میں ہونیوالی کم قیمتوں کا فائدہ عوام کو مکمل طور پر پہنچایا نہیںگیا تھا۔اگر ہم صرف 2017کے گزشتہ سات ماہ کی بات کریں تو بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمت جنوری میں 2017میں 52.81ڈالرز فی بیرل ہوئیں، فروری میںمعمولی اضافے کے بعد 54.44ہوئیں، مارچ میں کچھ کمی کے بعد50.95 ہوئیں، اپریل میں کچھ مزید کمی کے بعد 49.53ڈالرز فی بیرل ہوئیں، مئی کے ماہ میں مزید کمی کے ساتھ 48.46ڈالرز ہوئی ، جون میں مزید کمی دیکھنے میں آئی اور یہ قیمتیں 46.13ڈالرز کی سطح پر پہنچیں ، جولائی میں تقریباً چار ڈالرز کے اضافے کے ساتھ 50.32ڈالرز ہوئیں، اگست میں پھرکچھ کمی کے بعد 47.23ڈالرز ہوئیں، ستمبرمیں معمولی اضافے کے بعد 51.67کی سطح پر پہنچیں اور اب تین اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 51.67ڈالرز فی بیرل ہیںمگر ہمارے ارباب اختیار پیٹرولیم مصنوعات کی ہونے والی کم قیمتوں کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے بجائے اپنے شاہانہ انتظامی اخراجات پر خرچ کررہے ہیں۔ جس کا اندازہ اوپر دئیے گئے 2017کے اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنوری 2017میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم پرائس52.81ڈالرز فی بیرل تھیں اس وقت ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمت 68.04روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 77.22روپے فی لیٹرتھی مگر اسکے بعد کئی مہینوں تک پیٹرولیم کی قیمتیں کم ہوتی رہیں اور اب 51.67ڈالرز فی بیرل ہوچکی ہیں مگر ہمارے ہاں پیٹرولیم پرائس کم ہونے کے بجائے بڑھ کر پیٹرول 73.5روپے فی لیٹر اور ڈیزل 79.4روپے فی لیٹر ہوچکا ہے ۔حالانکہ اگر اس وقت عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت 55ڈالرز فی بیرل بھی ہوتو اسکے مطابق ہمارے ہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تقریباً ساٹھ روپے فی لیٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی طرح اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ہمارے ملک میں ڈیزل کا استعمال ماہانہ 900 ملین لیٹر ز سے زائداور پیٹرول کا ماہانہ استعمال 800 ملین لیٹرزسے زیادہ ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہماری محبوب حکومت نے اپنی ہردلعزیزعوام کو ماہانہ اربوںروپے کے پیٹرولیم کے ٹیکے لگا رہی ہے۔اسکے علاوہ اگر ہم صرف گزشتہ آٹھ دس سالوں کی پیٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں اور پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا موازنہ کریں تواندازہوتا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی کا پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر کوئی خاص اثر نہ پڑتا بلکہ ارباب اختیاراپنے شاہانہ اخراجات او ر مفاد کی وجہ سے پاکستان میں اپنی مرضی ومنشاءکے مطابق قیمتیں متعین کرتے ہیں ۔2006سے پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بین الاقوامی قیمتوں کے تناسب سے توازن برقرار رکھا جاتا تھا اور قیمتوں کو مناسب حدمیں رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی اسی لئے سال2000میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمت 46ڈالرز فی بیرل اور پاکستان میں 30روپے فی لیٹر تھی ۔ اسی طرح سال2004 میں بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمت 65ڈالرز فی بیرل اور پاکستان میں37روپے فی لیٹر تھی مگر اسکے بعد حکومتیں اپنے اضافی شاہانہ اخراجات کو پورا کرنے اور بجٹ خسارہ کم ظاہر کرنے کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمتوںاور ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عدم توازن لاتے رہے۔ اس لئے میں مختصراً ارباب اختیارکی توجہ اس جانب مبذول کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی کم قیمتوں کا فائدہ عام عوام تک مکمل طور پر پہنچنا چاہیے اور پیٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل کو بھی کم کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنے چاہیے کیونکہ درآمدی بل بڑھنے سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے اور رواں کھاتے پر بھی منفی اثر پڑتا ہے ۔جس کی وجہ سے قرضوں کے حصول کی ضرورت پیش آتی ہے اور مزید رواں کھاتے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے ہماری مرکزی حکومت کوانتہائی سنجیدگی، سمجھداری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اوراپنے پیٹرولیم وسائل کو بھی بروئے کار لانا چاہیے کیونکہ قدرت نے پاکستان کے بیش بہا قدرتی و معدنیاتی وسائل کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم وسائل سے بھی مالامال کیا ہوا ہے شرط صرف اس کو استعمال میں لانے کی ہے۔ اسی صورت میں ہم اپنی معیشت کو آزاد، مضبوط اور مستحکم کرسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن