کالا باغ ڈیم اور اتفاق رائے کی رٹ

دریائے سندھ میں پانی کا بہاﺅ کم ہو جاتا ہے تو دریا میں ٹھٹھہ سجاول پل سے زیریں بہاﺅ پر اگھی مانی تک سمندر کا پانی چڑھ آتا ہے۔ واٹر اپورشن مینٹ اکارڈ 1991ءکی شق نمبر 7 اور بعد کے ارسا کے ماہرین کےمطابق پانی کی معقول مقررہ مقدار کوٹڑی بیراج سے نیچے بہاﺅ میں خارج کئے جانے سے سمندر کا پانی اوپر آنے سے رک جائےگا۔ دنیا کے کئی ممالک نے اس کا سدباب انجینئرنگ اسٹرکچر اور اس میں جدید طریق کار استعمال کرکے کیا ہے۔ انڈیا نے کیرالہ اسٹیٹ میں رواں ہونےوالے دریا اچنکول پر تھوٹا پلی کے مقام پر اسپل وے تعمیر کیا ہے۔ برطانیہ نے دریا ٹیمز پر ٹیمز بیریئر تعمیر کیا ہے اور دریا ٹیز پر مڈلز بورو کے مقام پر ٹیز بیراج تعمیر کرکے سمندر کے پانی کو دریا میں آنے سے روک دیا ہے۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ دریا سندھ پر کیٹی بندر کے قریب موزوں مقام پر بیراج یا اسپل وے تعمیر کرے اور اس پر جہازوں کے گزرنے کیلئے River Lock ریور لاک تعمیر کرے۔ اسپل وے کی صورت میں ایک دروازہ بھی تعمیر کرے تاکہ وقتاً فوقتاً کھولنے سے سمندری آبی حیات‘ مچھلیاں دریا میں ہجرت کر سکیں۔ اسپل وے یا بیراج کی تکمیل کے بعد کوٹڑی سے معقول مقدار میں پانی نیچے خارج کیا جائے تاکہ دریا سندھ کیٹی بندر سے کوٹڑی تک ایک جھیل کی صورت اختیار کر جائے اور اس میں جہازرانی کی صورت بن سکے۔یوں کراچی پورٹ سے کوٹڑی تک بڑے بارجز کے ذریعے تجارتی مال کی نقل و حمل ہو سکے۔ بعد میں کالاباغ ڈیم مکمل ہوتا ہے تو سیلابی پانی ریگولیٹ ہونا ممکن ہوگا۔ ڈیموں سے زراعت کیلئے پانی کے اخراج سے کوٹڑی تک دریا میں پانی کا اتنا بہاﺅ ممکن ہوگا کہ 200 سے 300 ٹن وزن کا مال اٹھانے والے بارجز اٹک سے کراچی بندرگاہ اور اس سے بھی آگے گوادر تک جا سکیں گے۔ یوں خشکی کے راستے CPEC کی راداریوں کےساتھ دریائی راہداری ایک اضافی روٹ بن جائے گا جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اضافہ کا سبب بنے گا۔
سندھ میں دو عدد چھوٹے ڈیم بنے ہیں۔ نٹیں گاج ڈیم‘ گاج کے پہاڑ ندی پر اور دراوت ڈیمز‘ باران کے پہاڑی ندی پر تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹے ڈیم ہیں جس طرح صوبہ خیبر پختونخوا‘ پنجاب اور بلوچستان میں ڈیمز زیرتعمیر ہیں اسی طرح سندھ کے عوام کا حق بنتا ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے سیہون بیراج‘ منچھر ڈیم اور چوٹیاری ڈیم (پہلے سے بنا ہوا ہے) اور انہار کے کمپلیکس منصوبہ پر عملدرآمد کیا جائے اور تعمیر کا آغاز کیا جائے جس کے ذریعے سندھ کے ضلع سانگھڑ‘ ضلع عمر کوٹ اور ضلع مٹھی کے مشرق میں تھر کی قابل کاشت بنجر زمین کیلئے دیا سندھ کا پانی پہنچایا جائے۔ سندھ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ آر بی او ڈی کا آلودہ پانی کو حمل جھیل اور منچھر جھیل سے بائی پاس کرکے براہ راست سمندر میں ڈالا جائے۔ اسکے علاوہ اینی کینال منصوبے کو گھوٹکی اور سکھر اضلاع کے علاوہ خیرپور ضلع تک بڑھایا جائے تاکہ سندھ کے مشرقی صحرا کیلئے دریا سندھ کا پانی پہنچانے کیلئے نہری نظام موجود ہو اور کالاباغ ڈیم مکمل ہونے کی صورت میں اپنے حصے کا اضافی پانی استعمال کر سکے۔ یوں سندھ کے عوام کے تحفظات دور کرکے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اتفاق رائے حاصل کیا جائے۔
قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ نے بجا طورپر فرمایا کہ دشمن کی بلوچستان اور کراچی کو علیحدہ کرنے کی کوشش ناکام بنا کر پاکستان کو خشکی سے گھرا ملک بنانے کے منصوبہ کو ناکام بنایا ہے۔ معاشی پابندیوں کے ذریعے پاکستان کو مجبور کرکے ایٹمی ہتھیار سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ جنرل ناصر جنجوعہ صاحب سے استدعا ہے کہ پاکستان سالانہ 35 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہا دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر ایک ملین ایکڑ فٹ پانی زراعت کیلئے استعمال کرکے ہر سال دو ارب ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ اس حساب سے سالانہ 70 ارب ڈالر کی معیشت سمندر میں بہایا جاتا ہے۔ جس طرح دشمن نے کراچی اور بلوچستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کی اور ہمارے ہی عوام کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جسے ناکام بنایا گیا۔ اسی طرح دشمن کالاباغ ڈیم کی تعمیر روکنے کیلئے ہمارے ہی ہم وطن لوگوں کو استعمال کر رہا ہے۔ قومی سلامتی کونسل اس پر دھیان دے اور اسے بھی ناکام بنائے۔ جہاں تک اقتصادی پابندیاں کا سوال ہے تو فقط کابالاغ ڈیم کی تعمیر مکمل کرکے 6.1 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ‘ 3.0 MAF ملین ایکڑ پانی منگلا ڈیم میں ذخیرہ اور 12.8 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی بنتا ہے جوکہ 48.8 ارب ڈالر کی سالانہ کی معیشت ہے۔ اسکے علاوہ کابالاغ ڈیم سے 3600 MW میگاواٹ ہائیڈرو پاور بجلی پیدا ہونا ہے جوکہ پانچ ارب ڈالر سالانہ کی معیشت ہے۔ اگر کوئی گمان ہے تو جنوبی کوریا کے آبی وسائل کے استعمال کا مطالعہ کیجئے۔ 1961ءمیں جنوبی کوریا کی جی پی پی (فی کس آمدنی) 1106.7 ڈالر تھا۔ صدر لی میونگ بک کی قیادت میں 2011ءمیں دریاﺅں کی بحالی‘ آبی ذخائر اور ہائیڈرو پاور کی تعمیر اور آبی وسائل کے از حد استعمال کی بدولت چند برسوں میں 2014ءمیں بڑھ کر جی ڈی پی 24,565.56 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب ”پاکستان داخلی و خارجی چیلنجز“ (مطبوعہ فکشن ہاﺅس لاہور) صفحہ 238 سے 243 اور صفحہ 252 سے 260۔
اس تمام تحقیق کے بعد یہ امر یقینی ہے کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کی معیشت اور بقاءکیلئے انتہائی اہم منصوبہ ہے۔
کابالاغ ڈیم کی تعمیر میں تساہل پاکستان کی سلامتی کیلئے نقصان کا باعث ہے لہٰذا تندہی سے کالاباغ ڈیم کو تعمیر کیا جائے۔ .... (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن