امریکی صدر کی طرف سے بھی سی پیک کے خلاف بیان آ ہی گیا۔ جس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امریکہ بھی بھارت کی طرح سی پیک سے خائف ہے۔ امریکہ نے جو الزام لگایا ہے کہ یہ راہداری متنازعہ علاقے سے گزر رہی ہے۔ تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکہ کے کس علاقے سے یہ راہداری گزر رہی ہے؟ کہاں امریکہ ، کہاں پاکستان اور چین … لیکن پھر بات سمجھ میں آئی کہ یہ متنازعہ علاقہ بھارت کے قبضے میں ہے یعنی مقبوضہ کشمیر … لیکن کیا چین اور بھارت ایسے بے وقوف ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے یہ راہداری گزرنے دیں گے جہاں بھارت نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور جہاں آئے روز بلکہ روزانہ دھماکے گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ اگر اس راہداری کا کچھ حصہ آزاد کشمیر سے گزر رہا ہے تو اس پر امریکہ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہاں پاکستان کی حکومت ہے اور یہ علاقہ متنازعہ نہیں ہے آزاد کشمیر کے لوگ خود کو پاکستانی کہتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ بہت خوش ہیں۔
اصل میں سی پیک نے مستقبل میں جو صورت اختیار کرنا ہے، امریکہ اس سے خوفزدہ ہوگیا ہے۔ کیونکہ یہ اکنامک کا ریڈور ہے یعنی اقتصادی راہداری، اس کی بدولت پاکستان اور چین دنیا کی نمایاں ترین معاشی قوتیں بن جائیں گی جو امریکہ کو ہرگز قبول نہیں۔ اگر یہی راہداری بھارت اور چین کے درمیان ہوتی تو امریکہ اس پر لڈیاں ڈالتا اور اسے سپورٹ کرتا ۔ لیکن چونکہ یہ پاکستان کی خوشحالی کا منصوبہ ہے جو کہ میاں نواز شریف کی کوششوں کا ثمر ہے۔ اس لیے امریکہ کو اس پر شدید اعتراضات ہیں۔ لیکن بحمداللہ کہ پاکستان کی حکومت اور فوج اس معاملے پر متفق ہیں لہذا دونوں نے امریکہ کو بڑے واضح انداز میں بتا دیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ پر انحصار کی پالیسی ترک کر دی ہے اور چین نے بھی امریکہ کو کھری کھری سنا دی ہیں جبھی تو امریکی وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ امریکہ کی طرف سے ہو رہا ہے۔ پاکستان کا رویہ اس وقت امریکہ کے ساتھ بہت سرد اور تلخ سا ہے جسے اپنائے رکھنا چائیے۔
دوسری طرف عمران کے خلاف بھی الیکشن کمشن نے کارروائی کرتے ہوئے عمران کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے ہیں جس پر عمران بہت برانگیختہ ہوئے اور اسے زیادتی اور ناانصافی قرار دیا۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ جب کوئی عدالت طلب کرے تو پیش ہونا چاہئے۔ آخر میاں نوازشریف مع فیملی بھی تو پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ عمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور باقی ساری دنیا کا احتساب کروانے کا ٹھیکہ انہوں نے لے رکھا ہے۔ اب اپنا احتساب بھی کروائیں اور پہلے خود عدالتوں سے کلین چٹ حاصل کریں پھر کسی اور پر الزام لگائیں۔ ان کے ساتھ ان کے دست راست جہانگیر ترین کا ٹرائل بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ عمران اتنے بددل ہو گئے ہیں کہ کہتے ہیں ’’اگر مجھے نااہل قرار دیاگیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔‘‘ بھائی‘ آپ کے چلائے ہوئے مقدمے پر عدالت نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ چھوڑی‘ لیکن سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوئے بلکہ اپنے خلاف ریفرنسز میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور اپنی پوزیشن صاف کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں۔ آپ ایک وارنٹ پر اتنے مایوس ہو گئے ہیں کہ سیاست چھوڑنے کی نوبت آگئی ہے۔ کہاں گیا آپ کا ملک کی ’’خدمت‘‘ کرنے کا جذبہ؟ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ یہ راستہ آپ ہی نے سب کو دکھایا ہے۔ اب آپ بھی بھگتیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے آخر اورنج لائن ٹرین چلا کر دکھا ہی دی۔ یہ ہوتا ہے عزم‘ یہ ہوتا وعدہ‘ یہ ہوتی ہے کمٹمنٹ۔ ارادہ کر لیا تو پھر اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ اس کے فوراً بعد ملتان سپیڈو بس سروس کا بھی افتتاح کر دیا۔ کام کرنا کوئی شہبازشریف سے سیکھے۔ اگر پاکستان کے ہر صوبے کو ایک شہبازشریف مل جائے تو پاکستان محض پانچ برس میں دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ اگر درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے تو پھر بھی شہبازشریف کی کارکردگی کو پورا ملک قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آئندہ الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے جیتے گی۔