دنیامیں اس وقت مسلمان بد ترین حالا ت سے گز ر رہے ہیں یہود و ہنود کی سازشیں عروج پر ہیں مسلمانوں کو مسلمان سے ہی لڑاکر حضر ت نوح علیہ السلام کے زمانے سے اللہ کے احکامات کو ماننے والوں اور مخالفین کو زیر زبرکرنے کا سلسلہ جاری اور ساری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ آج کے دنیا بھر میں حالات امام کائنات حضرت محمد رسول اللہ کی پیشین گوئیوں کا نتیجہ ہیں ۔ جسے قرب قیامت کا زمانہ بتا یا گیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلما نوں کی کثیر تعداد اور 55 ممالک میں مسلمانوں کی حکو متیں دولت کے انبا ر جنگی سازو سامان سے لیس دنیا بھر کی نعمتیں اور مال و متاع کے باوجود ذلت اور پستی کی زندگی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے افغا نستان سے لے کر شام تک مسلمانوں سے آگ اور خون کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے جب فاقہ مستی تھی۔ وسائل نا م کی کوئی چیز میسر نہیں تھی تو مسلمان دنیا میں باعزت اور طاقت ور تھے۔ آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ذلت اور رسوائی لازم و ملزوم بن چکی ہے ۔اس کی بڑی وجہ اپنے نبی کے دین سے دوری اور احکام خدا وندی سے کج روی ہے ۔مگر ہم ان باتوں کو ما ننے کو تیار نہیں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور نسل کشی کرنے کی سب سے بڑی مثال اس وقت بر ما میں روہنگیا کے مسلمان ہیں جن کی داستانیں سن کر دل خون کے آنسوں رونے لگتا ہے ان کے ساتھ ظلم و ستم کو میڈیا سے چھپایا جا رہا ہے اس میڈیا کے جدید ترین دور میں ہوتے ہوئے بھی مسلما ن بچوں عورتوں اور مردوں کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا جار ہا ہے جسے سن کر ہلاکو اور چنگیز خان کی بربریت اور سفاکی کے قصے بھی ماند پڑتے دکھائی دیتے ہیں ہمارے نبی محترم نے تو مسلمان قوم کو"جسد واحد" ایک جسم کی ماند قرار دیا تھا۔ کہ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم ہی تڑپ اٹھتا ہے مگر اس ما دیت پرستی کے دور میں بے حسی مسلمانوں کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے عالمی تنظیموں کے انکشاف کے مطابق میا نمار سے جبری بے دخلی کا شکا ر ہو کر بنگلہ دیش پناہ لینے والے مسلمانوں کے دو لا کھ بچے بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے زندگی اور موت کی کشمکش میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کے لیے تعلیم تو کیا علا ج تک کا انتظام نہیں ۔ان کے جسمو ں پر پورے کپڑے نہیں غذائی قلت کا شدید شکا ر دنیا بھر میں بسنے والے بے شمار وسائل سے ما لا مال اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف حسر ت و یاس سے دیکھ رہے ہیں یہ لاکھوں مسلمان بچے تعلیم صحت سے محروم ہو کر استحصالی رویوں اور بردہ فروش ما فیا کا شکا ر ہیں رپورٹس کے مطابق اب تک آٹھ لا کھ روہنگیا مسلمان جن میں بچے عورتیں بوڑھے اور جوان شامل ہیں اس دھکتی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں اور ہر روز بر می افواج انہیں بارڈر کی طرف دھکیل رہی ہیں اگر وہ انڈیا کی طرف سے جاتے ہیں تو گولیوں تڑتڑاہٹ ان کا استقبال کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے آقائوں کے سامنے بے بس ہیں ۔گاجر مولی کی طرح یہ کٹتے مسلمان انسانی حقوق پر عالمی ایوارڈ یافتہ وزیر اعظم کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ ترک صدر کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے وہ بنگلہ دیش لینے پر مجبور ہوئے ہیں مگر وہاں کیمپوں کے حالا ت مسلمان نسل کشی اور ایک قوم کی تباہی کی داستان ہے روزانہ ہزاروں خواتین بچے اور بوڑھے علا ج ،لباس، رہائش نہ ہونے سے موت کو گلے لگا رہے ہیں ادھر برما میں روزانہ فوجی بچے کچے مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگاکر بستیاں کی بستیاں جلا رہے ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں جلنے والے روہنگیائی مسلمان بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے تڑپ رہے ہیں ۔ جس کیلئے طبی امداد کی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ابھی تک سعودی عرب اور ترکی کے علاوہ ان کی مد کو کوئی نہیں پہنچا ۔ ان کی حالت زار انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔آج ان کی مدد کو نہ پہنچے تو تاریخ کبھی معاف نہیںکرے گی پاکستان اور پاکستانیوں میں جذبہ خدمت خلق اور اسلامی بھائیوں کیلئے مدد کا جذبہ دنیا بھر کی قوموں سے زیادہ ہے مگر عام لوگ یہ معلوم نہیں کر پا رہے کہ ان بے چاروں کی مدد کیسے کی جائے کیونکہ براہِ راست کوئی سامان تو بنگلہ دیش نہیں پہنچایا جاسکتا تو اس کے حل کے لیے درددل کھنے والی شخصیات جن کا اوڑھنا بچھونا انسانی خدمت ہے زلزلوں کی تباہ کا ری ہو یا سیلا ب جیسی آفت کا مر دانہ وار مقابلہ ان کے حصے میں آیا ہے ان کے پیچھے ایک بہت بڑا تنظیمی ڈھانچہ ہے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی تاجر برادری پنجاب کے لیڈر اور معروف سوشل ورکر حاجی عبد ا لرئوف مغل اور تین سو تنظیموں پر مشتمل این جی اوز فورم کے صدر قاضی شعیب بابر نے روہنگیاکے مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیشی کیمپوں تک جانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہاں پہنچ کراپنے حصے کا دیاجلا یا جا سکے ظاہری نمود و نمائش سے ہٹ کر آگ اور خون کا دریا عبور کر کے آنے والے ان مسلمان بھائیوں کی تکلیف پر مرہم پٹی رکھنا اس وقت بہت بڑا کام ہے اور اس کا م کے لیے ہر پاکستانی کو اپنا حق فریضہ سمجھ کر اداکرنا ہو گا انہوں نے مخیر حضرات کو آگے آنے کی اپیل کی ہے جس کی ابتدا گوجرانوالہ کی تاجر برادری سے کی گئی ہے مگر اتنے بڑے پیمانے پر ہجر ت کرنے والے ان مسلمان بھائیوں کی زندگیوںمیں رونقیں واپس لوٹاناکوئی مذاق نہیں ان کو زندہ رکھنے کے لیے خوراک ادویات علاج معالجہ ملبوسات رہن سہن کا بندوبست خیمے اور دیگر ضروریات زندگی کا سامان مہیا کرنا جا ن جوکھوں کا کام ہے لاکھوں ڈالر روزانہ کی بنیاد پر رقم کی ضرورت ہے ۔مگر اللہ اپنے کا م اپنے بندوں سے ہی لیتا ہے آگے چلنے والے ایک دو ہی ہوتے ہیں جب خلوص نیت کے ساتھ کمر بستہ ہوکر خالص اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے کا م کیا جائے تو اللہ تعالیٰ راستے خود بخود پیدا کر دیتا ہے منزل کی جستجو آسان نہیں ہوتی ہمارے ہاں درد دل رکھنے والوں مخیر حضرات کی کمی نہیں آج بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت عثمان غنیؓ جیسا جذبہ دیکھنے کو مل سکتا ہے بس صدا لگانے کی ضرورت ہے ہمیں امید ہے جس جو ش و جذبے کے ساتھ گوجرانوالہ کے سپوتوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کی ٹھان لی ہے ایثار و محبت کی ایسی مثالیں قائم ہونگی جسے لکھتے ہوئے ہمارے صفحات کم پڑ جائیں گے۔