کیلوں کی اپنی اپنی ریڑھیاں

بنانا ری پبلک میں یہی ہوتا ہے، اپنے اپنے کیلے ا ور اپنی اپنی ریڑھیاں سجتی ہیں اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کے کیلے نہ بکنے پائیں۔ ادارے سے ادارہ ٹکرا رہا ہے، ہر کوئی من مرضی چلانا چاہتا ہے، حکومتی رٹ کا نام و نشان کہیں نہیں ملتا۔اداروں کے مابین مشاورت کا عمل بھی مفقود ہے ۔ وزیر دفاع امریکیوں کو پیشکش کرتے ہیں کہ دہشت گروں کے خلاف مشترکہ کاروائی کی جا سکتی ہے، آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اس امکان کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ نشاندہی کر دے، کارروائی ہم کریں گے۔ ویسے پاکستان میں ڈرون حملے پہلے دن سے امریکہ ہی کر رہا ہے، ان کے لئے وہ حکومت پاکستان تک کو اعتماد میں لینے کی زحمت نہیں کرتا، ایبٹ آباد میں تو پاکستان کے اقتدارا علی کو امریکی ہیلی کاپٹروںنے تہس نہس کر دیا تھا ، اس کارروائی کی نگرا نی وائٹ ہائوس سے صدر اوبامہ نے براہ راست کی یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے امریکہ کو اپنی سرزمین پر حملوں کے لیے ایک عرصے تک شمسی ایئر بیس بخشیش کر دی تھی، پاکستان کی شاہراہیں بھی نیٹو کے اسلحے اور دیگر اشیا کی سپلائی کے لئے کھلی تھیں جنہوںنے ہماری ان شاہراہوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا، عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف جلوس نکالتا رہا ہے۔ جن دنوں دہشت گردوں سے مذاکرات کا سلسلہ چلا تھا تو ہماری کئی جماعتوں کا کہنا تھا کہ امریکی حمائت میں لڑتے ہوئے ہمارا جو شخص شہید ہو جائے، ہم اسے شہید نہیں مانیں گے بلکہ اگر امریکی ڈٖرون سے کتا بھی مر جائے تو اسے شہید مانیں گے۔ یہ بڑی ا فسوسناک صورت حال تھی جس پر قومی اتفاق رائے سے جلد ہی قابو پا لیا گیا اور ایک نیشنل ا یکشن پلان پر سب پارٹیوںنے دستخط کر دیئے، کام وہی تھا جو ہم پہلے ہی سے کر رہے تھے۔ کان ہی پکڑنے تھے، دائیں طرف سے پکڑتے یا بائیں طرف سے پکڑتے۔امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کی ہمارے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی مگر یہ دشمنی تب بن گئی جب ہم نے ان کے خلاف محاذ کھولا، اب یہ بحث ایسی ہی ہو گی کہ پہلے انڈا یا پہلے مرغی۔بہر حال نائن الیون سے پہلے پاکستان لہولہان نہیں تھا، آج ہر لمحے ردالفساد کے آپریشن ہو رہے ہیں پھر بھی کسی پل چین میسر نہیں۔ ایک احتساب کا عمل جاری ہے مگر عدالتوںمیں پیشی کے وقت رینجرز کہاں سے آ جاتی ہے، اس پر وزیر داخلہ کا ذہن بھی چکرا گیا تھا اور وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں ، یہاں ایک حکومت ہے، اس کے مقابل کوئی حکومت قائم نہیں ہو سکتی ، پتہ نہیں یہ بحث کیسے ختم ہو ئی، بہر حال اطمینان کی بات ہے کہ یہ تو تکار سے آ گے نہیں بڑھی۔ اب ایک مسئلہ اس آئینی ترمیم کا ہے جس نے ختم نبوت کے حلف نامے پر کلہاڑی چلا دی۔ عاشقان رسولؐ تلملا کر رہ گئے۔ میر ظفراللہ جمالی کے خون نے کچھ زیادہ ہی جوش مارا ۔ وہ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہہ اٹھے کہ میری موت سے پہلے اس پارلیمنٹ کی موت واقع ہو جائے، اس جذبے کی ہر کسی نے ستائش کی مگر کسی نے جمالی صاحب سے یہ نہ پوچھا کہ اس ترمیم کا مسودہ ڈیڑھ برس تک آپ کی بغل میں پڑا رہا ، جب اس پر ووٹنگ ہوئی تو بھی یہ کاغذ آپ کی ڈیسک پر تھا مگر آپ نے اپنی ذمے داری کا احساس تک نہ کیا اور ا س پر ایک اچٹتی نظر نہ ڈالی، اب پوری پارلیمنٹ کی موت کی دعا کر رہے ہیں۔ شیخ رشید تو ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں ، یکا یک دھمکی دی کہ جمعے کی نماز سے پہلے یہ حلف نامہ درست کیا جائے۔ ورنہ ورنہ۔ اس کی تشریح انہوںنے نہیں کی۔
ہر مسلمان حب رسولؐ سے سرشار ہے اور ختم نبوت کے مسئلے پر جان دینے کو تیار ہے۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
ختم نبوت کی تحریک اول اول چلی تو مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ لاہور میں جنرل اعظم کا مارشل لا اورکرفیو نافذ تھا اور کڑیل جوان سینے کھولے گولیوں کے سامنے تن کر کھڑے تھے۔۔ بھٹو نے ختم نبوت کے منکرین کو کافر قرار دینے کے لئے آئین میں ترمیم کی۔ مگر اب میڈیا میں آیا ہے جس کی بعد میں تردید بھی آ گئی ہے کہ رانا ثناللہ ختم نبوت کے منکرین کو نماز روزے کا پابند سمجھتے ہیں، شاید کسی نے ان کی توجہ آئین پاکستان کی جانب مبذول کروا دی ہو گی۔اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
ایک کردار عزیر بلوچ کا سامنے آیا ہے، وہ ایسے افسانے سنا رہا ہے جیسے بانو بازار میں چنا چاٹ فروخت کر رہا ہو۔ فلاں کی گردن اڑائی۔ اس کی جان لی۔ اس کے بنگلے پر قبضہ کیا، اس کی مل ہتھیا لی، یہ عزیر بلوچ ہے یا کوئی الہ دین کا جن جس کی طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا،کسی نے سوال اُٹھایا تھا کہ کیا حافظ سعید سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے جسے ہم نے پال رکھا ہے، اس کا تو فیصلہ نہیں ہو پایامگر لوگوں کے ذہنوں میں تازہ سوال یہ ہے کہ یہ جو عزیر بلوچ ہے یہ ضرور سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے کہ کوئی اس کو ہاتھ تک لگانے کی جرات نہیں کرتا، ایسی ہی سونے کے انڈے دینے والی مرغی احسان اللہ احسان ہے جس نے ہزراوں دہشت گردی کے سانحوں کی ذمے داری قبول کی تھی مگر اسے کسی نے سزا تک نہیں سنائی، اسی طرح کہیں را کے ایجنٹ کل بھوشن کو بھی پالا پوسا جا رہا ہے۔اس کو کون اور کب پھانسی دے گا۔
کس کس بات پر روئیں پیٹیں، آج پھر احتساب عدالت میں وہی تماشہ ہوا، جو پہلے ہو چکا ہے، ہنگامہ آرائی اس قدر شدید تھی کہ عدالت کی کاروائی بھی نہ ہو سکی، پولیس نے پرانا تماشہ کیا کہ اجازت نامہ ہونے کے باوجود وکلا کو اندر داخل نہ ہونے دیا، یہ افراتفری تو ہے مگر خدشہ ہے کہ کہیںمعاملہ خانہ جنگی کی صورت اختیار نہ کر لے۔ دشمنوں کو اسی وقت کا انتطار ہے۔ اس وقت خطرہ حکومت ا ور نظام کو نہیں ، مملکت کو ہے۔ پاکستان کی محبت سے سرشار سردار غوث بخش باروزئی نے ابھی فیس بک پر اپنے زخمی دل سے لکھا ہے کہ پاکستان میں مملکت گرائونڈ زیرو کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔کل شام درد دل رکھنے واے جنرل محمد جاوید سے طویل گفتگو ہوئی، وہ سراپا سوال بنے ہوئے تھے کہ حکومت نام کی چیز کہاں ہے، ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے، ہم سب شتر بے مہار کیوں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسوقت ہم اس قدر تتر بتر ہو چکے ہیں کہ حالات پر قابو پانے کے لئے کوئی شخص آگے بڑھ کر یہ پیش کش کرنے کی پوزیشن میںنہیں کہ اسے موقع دیا جائے ،ا سکے پاس مسائل کا حل ہے۔ اس لئے ہر کوئی اپنی ذمے داری سے کنی کترا رہا ہے۔ اور عوام بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ایسا صرف بنانا ری پبلک میں ہی ہو سکتا ہے، عمران کے ورنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کہتی ہے کہ اسے ہاتھ لگا کر دکھائو۔سابق وزیر اعظم کے داماد کو تو ہتھکڑیاں لگ گئی تھیں۔مگر کچھ لوگ کسی نہ کسی کے چہیتے ہیں یا پالتو ہیں، ان کا نہ کوئی احتساب کر سکتا ہے، نہ انہیںہتھکڑی لگا سکتا ہے۔ایسے حالات میں خدا نخواستہ کہیں پوری قوم کوہتھکڑی نہ لگ جائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...