پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر برس ہوگئے ہیں آج بھی دائیں بازو والے پاکستان کے قیام کا سبب ’’ٓاسلام‘‘اور بائیں بازو والے ’’روٹی‘‘قرار دیتے ہیں۔مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ دو قومی نظریہ کے تحت یہ ملک قیام نظام اسلام کے لئے بنا تھا۔اس قبیل کے اکثر عوام اور علماء اسلام کے روایتی تصور کے پرچارکر رہے ہیں۔وہ اسلام کے نظام عدل و انصاف اور آزادی و جمہوریت کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے ۔یہی وجہ ہے کہ جب جنرل ضیاء نے اسلام کے نام پر آمریت رائج کی اس کے ’’ملو کی و عسکری‘‘عہد اقتدار کو ’’خلافت‘‘قرار دے دیا۔یہ تفہیم دین کے فقدان کی بدولت ہوا اس کے برعکس دوسرا طبقہ ہے جو خود کو روشن فکر اور اشتراکی کہلاتا ہے۔ان کابیانیہ ہے کہ پاکستان مسلمانان ہند کی اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لئے بنایا گیا۔قیام پاکستان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔بھارت میں اقتصادیات پر ہندو چھائے ہوئے تھے۔سودی کاروبار تھا۔مسلمان ان پڑھ اور غریب تھے۔انگریز اور ہندو باہم شیرو شکر تھے۔ایسی حالت میں قائد اعظم نے مسلمانوں کی غربت کے خاتمہ کے لئے نئے ملک کا مطالبہ کیا۔دائیں اور بائیں گروہوں سے ہٹ کر ایک راہ راست یعنی’’صراط مستقیم‘‘بھی ہے۔یہ سیدھا راستہ علامہ اقبال اورقائد اعظم کا ہے جو اسلام کی حقیقی ،عملی اور انقلابی تفسیر و تعبیر کرتے ہیں۔وہ اسلام کو نظام مساوات محمدی سمجھتے تھے جس میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ ملائیت و شخصیت کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔گویا ایک طرف یہ دونوں عظیم رہنما مارکس اشتراکیت کو رد کرتے ہیں تو دوسری طرف مذہبی اور روحانی خود ساختہ ٹھیکیداروں کی بھی نفی کرتے ہیں۔علامہ اقبال کی شاعری ملائیت کی نفی کرتی اور ’’دین حقیقی‘‘کی ترجمان ہے۔علامہ اقبال نے مساوات و عدل پر بہت زور دیا اور ‘‘قل العفو‘‘کی تائید میں اشعار لکھے۔28 مئی 1937 ء کو قائداعظم کے نام لکھے گئے خط میں رقم طراز ہیں کہ ’’روٹی‘‘کا مسئلہ بڑی شدت سے توجہ طلب ہے۔مسلمانان ہند نے اس بات کو بری طرح محسوس کیا ہے کہ گزشتہ دو سوبرس سے وہ روبہ زوال ہیں۔ان کی غربت کا سبب ہندوؤں کا سود خوری کا نظام اور سرمایہ دارانہ رجحان ہے۔علامہ اقبال کے اس مشورہ اور رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے 1943ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔روٹی کا مسئلہ حل کیا جائے گا اور یہی اسلام کا درس ہے۔گویا علامہ اقبال اور قائداعظم ’’روٹی اور اسلام‘‘کو جدا جدا نہیں گردانتے تھے وہ اسلام کے اعتقادات اور عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات کو اسلام کی بنیاد قرار دیتے تھے لٰہذا دائیں اور بائیں بازو کی بحث میں الجھے بغیر قیام دین اسلام کریں جس کی بنیاد عقیدہ سورۃ المومنون کی آیت نمبر54 میں فرقہ واریت کو جہالت و ضلالت قرار دیا گیا ہے۔لوگ دین چھوڑ کر فرقہ بازی میں خوش ہیں حدیث پاک ہے کہ یہودیوں نے بہتر فرقے بنالئے اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے سوائے ایک کے باقی تمام فرقے جہنمی ہوں گے۔یہ حدیث پاک فرقہ واریت سے اجتناب کے لئے کافی ہے قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کے حوالہ سے آیت ہے کہ انہوں نے ملت ابراہیمی کا نام’’مسلم ‘‘رکھا۔گویا آج جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اسلام کا پیروکار ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف’’مسلم‘‘کہے اور فرقہ واریت کی نفی کرے۔قرآن مجید کا بھی یہی حکم ہے ’’اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور فرقہ بازی نہ کرو‘‘فرقہ واریت کو شرف قرار دیا گیا اور شرک ناقابل معافی گناہ اور ظلم عظیم ہے۔فقہی،مسلکی،نظری اور تاریخی اختلافات پر ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔تکفیری سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔برصغیر ہند میں احمد رضا خان کے فتاویٰ رضویہ اور قاسم نانوتوی کے فتاویٰ قاسمیہ کا مطالعہ اس سلسلہ میں کافی ہے ایک نوجوان نے استفسار کیا کہ وہ کدھر جائے علماء نے فرقہ واریت میں الجھا دیا ہے میں نے عرض کیا بانیان پاکستان نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد محض قیام نظام اسلام تھا۔قائداعظم اور علامہ اقبال مسلکی و فقہی تنازعات سے بالاتر تھے علامہ اقبال شاعر کے علاوہ فلسفی اور عالم دین تھے ان کی رائے میں قیام نظام دین میں صدیوں سے ملوکیت و ملائیت حائل تھی۔پاکستان کو اسلامی نظام کی تجربہ گاہ بنانا مقصود و مدعا تھا جنرل ضیاء نے اپنی غیر آئینی و غیر جمہوری حکومت طول دینے کے لئے اسلام کا نام استعمال کیا۔اسلام میں آمریت و ملوکیت و عسکریت نہیں بلکہ مشاورت و جمہوریت ہے اور اقتصادی انصاف ہے۔ضیاء الحق نے عملی اسلام سے کوسوں دور قوم کو پھینک دیا۔پاکستان میں فقہ جدید کی تدوین از نظریہ اجتہاد کی بجائے قوم کو فقہ حنفیہ اور فقہ جعفریہ میں الجھا دیا۔دین اسلام فقہ نہیں ضابطہ زندگی ہے۔جاگیرداری،سرمایہ داری،ملائیت،خانقاہیت اور آمریت کی اسلامی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔عصر حاضر میں عقلیت پسندی اور انصاف پسندی پر جدید فلاحی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے۔اسلامی معاشرے کے خصائص کی ایک جھلک سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں یوں درج ہے۔بے شک ایمان والے مراد پاگئے جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں اور جو بیہودہ باتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور جو زکوۃ ادا کرتے رہتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔اور جو لوگ اپنی امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں یہی لوگ(جنتٌکے وارث ہیں) ٰان آیات سے ثابت ہوا کہ ناری اور ناجی کا فیصلہ تکفیری مولویوں کا کام نہیں ہے۔یہ فیصلہ اعمال صالحہ اور اعمال خبیثہ کے مطابق ہوگا۔اپنے اعمال درست کریں اور رضائے الٰہی کے طلب گار رہیں۔9 جولائی 2017 ء کے روزنامہ نوائے وقت میں عدنان عالم کا ایک کالم بعنوان مادر ملت کی موت کا معمہ‘‘شائع ہوا ہے۔جس میں انہوں نے لکھا ہے ڈاکٹر کرنل ایم ایچ شاہ اور کرنل ایم جعفر نے اپنے دستخط کے ساتھ اس امر کی تصدیق کی محترمہ فاطمہ جناح کی موت سوتے میں حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی۔اس وقت کے کمشنر کراچی سید دربار علی شاہ نے بھی اسے طبعی موت قرار دیا۔ دوسری طرف مسز ہارون اور ایم اے اصفہانی بھی موہٹہ پیلس پہنچ گئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ محترمہ فاطمہ جناح کی گردن پر سرخ لکیر ہے۔قائداعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی کا خیال تھا کہ محترمہ کو ان کے ملازم نے قتل کیا ہے میت کوغسل دینے والی تین خواتین اور تجمیز و تدفین کرنے والے حاجی کلو کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ کی گردن پر زخموں کے نشان تھے۔بہر صورت محترمہ فاطمہ جناح کی وفات معمہ بن کررہ گئی ہے۔تاریخ کا ریکاڑد درست رکھنے اور اپنا قومی و دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اس معمہ کے حقیقت بتانا فرض سمجھتا ہوں۔میرے کالموں کے مجموعہ بعنوان’’چراغ افکار‘‘مطبع 25 جولائی 2008 میں ایک کالم جو اردو ٹائمز نیو یارک میں شائع ہوا تھا اس کتاب میں شامل ہے جس کا عنوان ’’محترمہ فاطمہ جناح۔طبعی موت یاقتل‘‘ہے۔اس میں یہ لکھا ہے کہ ایوب خان حکومت کے خاتمے کے بعد جب وہ اسلام آباد ایوب چوک کے قریب رہائش پذیر تھے میں ان سے کبھی کبھار میں ان سے ملاقات کے لئے جاتا اور ملکی معاملات اور واقعات گذشتہ پر گفتگو کرتا۔ان سے ملاقاتوں کا ذکر میں نے اپنی انگریزی تصنیف(TESTAMETOFTRUTH)میں بھی کیا ہے۔چراغ افکار کے صفحہ نمبر 338 پر درج ہے کہ فاطمہ جناح کے قتل کے بارے میں جب میں نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پوچھا تو انہوں نے کہا۔’’ایک دن صبح صبح مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ فاطمہ جناح کو ان کے ایک ناراض اور بھگوڑے نو کر نے رات کو قتل کردیا ہے تو میں نے فوری تحقیق کے احکامات صادر کیے۔مجھے چند گھنٹوں کے بعد بتایا گیا کہ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق ان کی موت گلہ دبا نے سے ہوئی ہے اور ان کی گردن پر نشانات بھی ہیں اور بستر کی چادر پر خون بھی ہے۔میں نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پوچھا کہ انہوں نے عدالت عالیہ کا جج مقرر کرکے تحقیقات کیوں نہیں کروائیں اور قتل کیوں چھپایا گیا تو انہوں نے کہا کہ محترمہ نے ایک نوکر کو تنخواہ بر وقت نہیں دی اور اپنے تیزمزاجی کی وجہ سے اسے ڈانٹ پلائی تو اس نے رات کو کمرے میں داخل ہوکر سوئے میں کسی رسی سے ان کا گلا دبا دیا۔میں نے تحقیقات اس لئے نہیں کروائی کیوں محترمہ مجھ سے الیکشن ہار چکی تھیں۔میری سیاسی مخالف تھیں حزب اختلاف کو میرے خلاف الزام تراشی اور تحریک چلانے کا بہانہ مل جاتا اس لئے مسئلہ سیاسی مصلحت کی وجہ سے دبا دیا گیا لیکن یہ سچ ہے کہ محترمہ کے قتل میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ راقم نے نواز شریف دور میں فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں مادرملت کی برسی کے موقع پر جس کی صدارت وفاقی وزیر بیگم تہمینہ دولتانہ کررہی تھیں۔اپنی تقریر میں اس قتل کا انکشاف کیا تھا جس کی خبر راولپنڈی کے انگریزی اور اردو اخبارات ن جلی حروف میں شائع کی تھی۔