لاہور (صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے وکلا کی جانب سے سب انسپکٹر پر تشدد کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات معطل کرنے اور نامزد وکلا کی گرفتاریوں سے متعلق حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی ،چیف جسٹس نے وکلا کی نعرے بازی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دھمکی د ی کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے لیکن بے انصافی نہیں کریں گے ۔ ہفتہ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے لاہور میں وکلاء کی جانب سے پولیس سب انسپکٹر پر تشدد کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کی ۔ وکلاء کی نعرے بازی پر چیف جسٹس نے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ وہ استعفیٰ دے دیں گے تاہم نا انصافی نہیں کریں گے ۔ چیف جسٹس کا وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہیے اپنے والد کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں ۔ سیکرٹری لاہور بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ سب انسپکٹر پر وکلاء نے تشدد نہیں کیا ۔ سیکرٹری لاہور بار نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ آپ وکلاء کے خلاف ایف آئی آر معطل کریں ۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی آر معطل نہیں ہو گی ۔ وکیل یا سب انسپکٹر قصوروار پایا گیا تو سخت کارروائی ہو گی ۔ دوران سماعت وکلاء کی بڑی تعداد کمرہ عدالت نمبر ایک میں پہنچ گئے اور نعرے بازی شروع کر دی جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں استعفیٰ دے دوں گا مگر کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کروں گا ۔ چیف جسٹس نے صدر لاہور بار ایسوسی ایشن اور سیکرٹری لاہور بار کی جانب سے وکلاء کے خلاف درج ایف آئی آر معطل کر دی جائے ۔ چیف جسٹس نے ایف آئی آر معطل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آئندہ ہفتے بار کونسلز کے نمائندے پیش ہوں گے اور اس کے بعد جو بھی تفتیش ہو گی اس کے بعد ایف آئی آر معطلی سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ وکلاء عدالتوں کے ساتھ بھی ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پولیس انسپکٹر کو تھپڑ مارتے رہیں ۔ چیف جسٹس نے صدر لاہور بار سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار کے لیڈر ہیں آپ کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ یہ کام کیوں ہوا ۔ اس موقع پر صدر لاہور بار نے کہا کہ ہمیں یہ بتا دیں کہ عدالت کی ویڈیو کیسے لیک ہو سکتی ہے ۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے یہ ویڈیو لیک کروائی ہے آپ مجھے پکڑ لیں ۔ اس موقع پر سیکرٹری لاہور بار نے کہا کہ آپ نے اگر ایف آئی آر معطل نہیں کرنی تو ہم دھرنا دیں گے ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جاؤ جا کر دھرنا دے دو ۔ جو مرضی کرو مجھے گالیاں دو لیکن میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا اور نا انصافی نہیں کروں گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں یہیں بیٹھا ہوں جو کرنا ہے کر لیں ۔ چیف جسٹس نے صدر لاہور بار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اور میری نیچر کو بھی طرح جانتے ہیں میں کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کروں گا چاہے مجھے آخری حد تک ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ استعفیٰ دینا پڑا تو استعفیٰ دے دوں گا لیکن کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دوں گا ۔ دوران سماعت وکلاء نے کمرہ عدالت میں نعرے بازی بھی کی ۔ وکلاء پولیس کے خلاف بھی نعرے لگاتے رہے ۔ بار بار روکنے کے باوجود وکلاء نے نعرے بازی کا سلسلہ جاری رکھا جس پر چیف جسٹس نے کہا میں وکلاء تنظیموں کے سربراہان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دیتا ہوں اور جو کمیٹی رپورٹ دے گی اس کی روشنی میں کارروائی آگے بڑھائی جائے گی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے صدر لاہور بار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کو دیکھ کر آپ کے باپ کو شرم آنی شروع ہو گئی ہے ۔ اس پر صدر لاہور بار کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیاجس سے آپ کاسر شرم سے جھک جائے ۔ وکلاء کے خلاف سازش کی گئی ہے ۔ دہشت گردی کی دفعات وکلاء پر لگا دی گئی ہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گردی کی دفعات ناجائز تھیں تو آپ کو میرے پاس آنا چاہیے تھا ۔ صدر لاہور بار کا کہنا تھا کہ یہ بات طے ہو گئی تھی کہ عدالت کے اندر کی ویڈیو باہر نہیں آئے گی اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی ویڈیو منظر عام پر کیوں نہ آئے ۔وکلاء جو کرتے ہیں سب کے سامنے آنا چاہیے ۔ اس پر بار کے صدر کا کہنا تھا کہ میںبھی بار کا صدر ہوں بارکی عزت پر فرق نہیں آنے دوں گا ۔ چیف جسٹس نے عدالت میں شیم شیم کے نعرے لگانے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر کوئی مجرم پایا گیا تو عدالت رعایت نہیں برتے گی ۔ نعرے لگانے والے آئندہ میری عدالت میں نہ آئیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے کمرہ عدالت میں اس واقعہ کی ویڈیو چلائی جائے گی اور اس کے بعد میں فیصلہ کروں گا کون ذمہ دار ہے اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہو گی ۔ چیف جسٹس نے لاہور بار ایسوسی ایشن سے آئندہ ہفتے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ عدالت نے پولیس کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ واقعہ کے حوالہ سے تمام ریکارڈ سمیت پیش ہو ۔ کیس کی سماعت کے بعد وکلاء نے مال روڈ پر دھرنا دیا اور احتجاج کیا ۔ چیف جسٹس بھی کمرہ عدالت سے پیدل چل کر مال روڈ پہنچے اور وکلاء سے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا انصاف ہو گا اس طریقہ سے نہیں ہو گا کہ کسی سے بھی زیادتی ہو ۔ وکلاء آئندہ ہفتے کی سماعت کا انتظار کرلیں ۔ اس کے بعد چیف جسٹس گاڑی میں بیٹھ کر لاہور کے ایک مقامی ہوٹل چلے گئے۔