قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی گرفتاری نے اپوزیشن کی صفوں میں ہلچل مچا دی ۔ افراتفری کا شکار اپوزیشن منظم اور متحد ہونے لگی ہے۔ کرپشن کے نام پر فضا میں دھول اڑا کر یہ سب ہو رہا ہے۔ الیکشن سے محض چند روز پہلے نوازشریف اور مریم نواز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور اب ضمنی انتخابات سے محض ایک ہفتے قبل شہبازشریف کو گرفتار کر لیا گیا۔وزیراعظم جناب عمران خان کو یہ برتری خود اپوزیشن نے ہی عطا کی ہے۔ وزیراعظم کا الیکشن ہوا تو پیپلزپارٹی نے وعدے بھلا دیئے اور تمام دنیا کو پیغام دیا کہ اپوزیشن متحد نہیں منتشر ہے۔ صدارتی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے جوابی وار کیا۔ اب بھی مکمل سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں۔ 1977ء کی PNA کی تحریک میں اپوزیشن اخلاص کے ساتھ متحد تھی اور جناب بھٹو جیسی شخصیت کو سیسہ پلائی دیوار سے ٹکرانا پڑا تو گر پڑے۔
اکیلے نوازشریف اور مریم جلسے کرتے رہے، ستم ظریفی کی انتہا کہ انکے برادر خورد نے نوازشریف اور مریم نواز کے لاہور تشریف لانے کے وقت بھی ایئرپورٹ جانے کی زحمت نہیں کی۔ ان ہزاروں افراد کو بھی دکھ ہوا جو نوازشریف اور مریم نواز کی محبت میں دیوانہ وار ایئرپورٹ پر جانے کے منتظر تھے۔ نوازشریف صبر زیادہ ہی کرتے ہیں اور کم بولتے ہیں۔ انہیں افسوس ہوا ہوگا کہ یہ کیا کر دیاگیا۔ کس صورتحال میں وہ گرفتاری دینے پر مجبور ہو گئے۔ اگر یہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا فیصلہ تھا تو غیرعاقلانہ تھا۔ شاید مسلم لیگ (ن) کو جبر سہنے کی عادت ہو گئی۔ اس صورتحال میں مریم نواز ابھر کر بڑی قومی لیڈر بنتی جا رہی ہیں۔ ابھی محترمہ کلثوم نواز کے چہلم تک خاموش ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ وہ نوازشریف کے نظریئے کی پیروی کریں گی اور نہ شہبازشریف کی راہ اپنائیں گی۔ وہ ایک جداگانہ طرزعمل اور منفرد انداز کی سیاست کریں گی۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ پاکستان میں سیاست کی Dynamics کو سمجھ گئی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو وہ نہیں کریں گی۔ دشمن ملک بھارت سے دوستی کی نہیں‘ مذاکرات کی بات کریں گی۔ سعودی عرب سے دوستی ان کی ترجیح ہوگی۔ وزیراعظم جناب عمران خان کے خلاف ایک Popular اپوزیشن لیڈر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ مثبت انداز اپنائیں گی۔ ملک بھر میں جلسے منعقد کریں گی تنہا۔ بینظیر کی طرح جلوہ گر ہونگی اور ملکی سیاست پر چھا جائیںگی۔
پاکستان میں ترکی کے صدر اردوان اور ملائشیا کے مہاتیر محمد کی بات کی جاتی ہے۔ مگر حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سندھ کے مسائل کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ بعض معاملات نازک بھی ہیں۔ سندھ میں آئی جی کا تقرر بھی ایک مسئلہ بن چکا تھا۔ اب جناب کلیم امام نئے آئی جی مقرر ہوئے ہیں۔ نیک سیرت اور نیک شہرت آئی جی کے تقرر کا کراچی سمیت پورے سندھ میں خیرمقدم کیا گیا تھا۔ جناب اے ڈی خواجہ اچھے افسر تھے‘ لیکن پی پی حکومت اور ان میں بنی نہیں۔ وہ عدالت کی مداخلت پر اپنے عہدے پر رہے ضرور مگر عملی طورپر غیرفعال رہے۔ اب قوی امکان ہے کہ سندھ کی پولیس کو ایک دیانتدار افسر کی صورت میں کلیم امام ایماندارانہ قیادت مہیا کر دیں گے۔ پولیس سے عوام کی شکایتیں ضرور ہونگی اور پولیس کے ذریعے ہی مظلوم لوگوں کی دادرسی ہوگی۔ جناب کلیم امام اپنی مٔوثر نگرانی ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ کے نعرے کو صداقت اور سچائی فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ سندھ کے روایتی کلچر کے باوجود وہ ملک کے بدلتے موسموں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ یوں جہاں کلیم امام کو ایک اچھے ماحول میں کام کرنے کا موقع فراہم ہو جائے گا‘ ہم ان کیلئے صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پڑھے لکھے شخص ہیں اور جانتے ہیں کہ اچھی انتظامیہ کتنی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ کو معلوم ہے وہ دن گئے جب ’’خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے۔‘‘
پی ٹی آئی مرکز یا وفاق میں ہے اور سندھ میں پی پی کی حکومت ہے۔ یہ صورتحال خود پی ٹی آئی کیلئے ایک امتحان ہے۔ سندھو دیش کے نعرے اب دم توڑ چکے ہیں۔ سندھ اب عام طورپر وفاق کی حمایت پر مائل ہوا ہے۔ بینظیر شہید نے اس حوالے سے بہت کام کیا۔ جب تک حیات تھیں‘ وہ وفاق کی زنجیر بنی رہیں۔ زرداری صاحب نے بھی ہمیشہ ’’وفاق‘‘ کی سیاست کی۔ ان کے اس کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
پاکستان کی پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کو کچلنے کی بات ممکن نہیں ہے۔ چین میں وزیروں کی گرفتاری کی بات کی گئی ہے۔ مگر چین میں Democracy نہیں۔ ایک پارٹی کی حکومت ہے۔ تو کیا آپ پاکستان میں ایک پارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں؟۔ اردوان اور مہاتیر محمد اپنی تمام خوبیوں کے باوجود اپوزیشن کو برداشت نہیں کرتے۔ مہاتیر نے اب بھی اور پہلے بھی اپوزیشن لیڈر کو جیل میں رکھنے کو ترجیح دی۔ اردوان کے اپنے ہزاروں مخالفین کو زندگی کے ہر شعبے سے گرفتار کیا ہے۔
پاکستان میں حکومت چاہے بھی تو اپوزیشن کا ایسا دھڑن تختہ ممکن نہیں ہے۔ بھارت میں پارلیمانی جمہوریت کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے یہ تجربہ کیا۔ تمام دانشوروں کو قید میں ڈالا۔ ہر سیاسی جماعت کے بخئے ادھیڑنے کی کوشش کی آخر اپوزیشن متحد ہو گئی اور بھٹو ہاتھ ملتے رہ گئے۔ جناب عمران خان کی کمزور اور نحیف حکومت یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی۔
خارجہ پالیسی میں بھی بڑی ذہانت سے توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ روس کے صدر پیوٹن کا حالیہ دورہ بھارت فکر مندی اور تشویش کے سگنل دے رہا ہے۔ امریکہ الگ روٹھتا جا رہا ہے۔ ایران بھارت کو چاہ بہار کی بندرگاہ دے رہا ہے۔ افغان صدر کو جب موقعہ ملتا ہے پاکستان کی چغلی کھانے لگتے ہیں۔ 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ ان ہی دنوں ہم نے چین اور امریکہ کی دوستی کرائی تھی۔ جب کسنجر کو پاکستان سے چین روانہ کیا گیا تھا۔ 1971ء کی جنگ میں چین نے چپ رہنے کی پالیسی اپنائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔تو کوئی ہماری حمایت میں ’’جنگ‘‘ نہیں کرے گا۔
اس پس منظر میں خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی کا انٹرویو جو ایک چینل پر دکھایا گیا۔ محترمہ کی دانش اور ذہانت کا بھرپور نمونہ تھا۔ محترمہ بشریٰ بی بی نے کمال ہنر مندی سے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی شعوری کوشش کی جو اپوزیشن کی جانب سے جناب عمران خان کے خلاف بھڑکائی جاتی ہے۔ محترمہ نے برجستہ اور بھرپور جوابات دئیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اینکر کی جانب سے کئی سوالات جو پوچھے جانے تھے نہیں پوچھے گئے۔ ایک ادھورے انٹرویو نے خود کئی سوالات پیدا کر دئیے، دوسرے انٹرویو کا انتظار رہے گا۔
ضمنی الیکشن آج (14اکتوبر) کو ہو رہے ہیں اور نیب کو 16 اکتوبر تک جناب شہبازشریف کا ریمانڈ دیا گیا ہے۔ یعنی ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں اور قائدحزب اختلاف شہبازشریف حراست میں ہیں۔ اس سے رزلٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان میں جمہوریت اس کو کہتے ہیں ایوب خان ، ضیاء الحق اور مشرف کی حکومتیں بہتر تھیں۔ ملک کو استحکام دیا۔ خطے میں اہم مقام حاصل کیا اور معاشی ترقی کی بنیادرکھی۔ جمہوری حکمرانوں کے طرز غم کو دیکھ کر ہم تو یہ سوچنے لگے ہیں … ؎
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے