گزشتہ سے پیوستہ
ابھی تک عمران خان اینڈ کمپنی "نون لیگ فوبیا" سے باہر نہیں نکل سکی کیونکہ کپتان سے لے کر بارہویں کھلاڑی تک ابھی تک ہرآخری کھلاڑی ایک کی زبان پر یہی گلہ ہے کہ ہمیں ناقص پچ فراہم کی گئی ہے اگر دیکھا جائے تو کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو ہر اچھی یا بری پچ پر عمدہ کار کردگی کا مظاہرہ کرے لیکن بجائے کنٹینر کی سیاست اور تقریر کرنے کے تمام دانشور اور سیاسی تجزیہ کار ،جن کو جی حضوری اور ہاں میں ہاں ملانا نہیں آتا یہی کہہ رہے ہیں کہ کپتان کو اب مفاہمت کی سیاست کو اپنا نا ہو گا کیونکہ گھر کے بڑے کو قربانیاں دے کر ہی گھر بچانا ہوتا ہے اب وقت ڈنڈے کا نہیں ایجنڈے کا ہے لیکن یوٹرن کی بجائے اگرحکومت درست اقدامات کرے تو ہمیں ایک نئے پاکستان کا سورج دیکھنے میں دیر نہیں لگے گی ، پھر موجودہ حکومت کے ناجائز تجاوزات کے آپریشن پر بات نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں ایک دیہی علاقے کا رہائشی ہونے کے ناطے مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے دیہات میں جہاں بھی تھوڑی بہت سرکاری زمین ملتی ہے غریب چھونپڑی ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں پھر مناسب وقت پر وہ جھونپڑیاں کچے ، پکے مکانوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن 100دن کے اندر اپنی جھولی میں بڑا کریڈٹ ڈالنے کی خواہش میں حکومت وقت نے سب غرباءکو بے گھر کر دیا جو جھولیاں پھیلا پھیلا کر بد دعا کرتے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہیں مگرسمجھ نہیں آ رہی کہ ابھی تک کپتان کا کوئی بھی ایسا خیرخواہ اور ہمدرد ایسا نہیں ہے جو انہیں یہ بتا سکے کہ قبضہ گروپ ہمیشہ امیر لوگ ہوتے ہیں غریب ، فقیر اور جھونپڑ ی میں رہنے والے "ہر ملک ، ملک ما است کہ ملک خدائے ما است " سمجھتے ہوئے کہیں بھی اپنے ڈیرے لگا لیتے ہیں اور اگر ملکی خزانہ بھرنا ہی ہے اور کرپٹ عناصر کو رُلانا ہی ہے تو عوام کی بجائے انہی افراد کو چیخنے پر مجبور کردیں یا ان کو رُلائیں جو عرصہ 70سال سے ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں افسوس کی بات ہے ۔
اگر بات ہو عوام کی تو ایک مثال یا دآ گئی سنتے آ ئے ہیں کہ ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا، ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمند ر کسی چٹان سے ٹکرا گیا، لوگ ڈوبنے لگے لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب ڈریکولا ڈوبنے لگا تو ایک ہمدرد اور نیک طینت انسان نے اس کو بحری جہاز کے بڑے تختے کی طرف کھینچ لیا جس پر وہ خود سوار تھا۔رات ہوئی توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس لگی، پہلے پہل تو ڈریکولا نے اپنے آپ کو روکے رکھا لیکن جب ہوس بڑھی تو دلیل پر خواہش غالب آ گئی او روہ سوچنے لگا کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اوریہی سوچ کر روزانہ اس نے اپنے ہمدرد کے جسم سے دو دو گھونٹ خون نچوڑناشروع کر دیا اور ہمدرد کمزور ہوتے ہوتے بستر سے جا لگا۔آخر کار ایک دن ڈریکولا کا ضمیر جاگا تواس نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا۔ایک رات گزری، دوسری رات گزری ، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم خون کیوں نہیں پیتے کیونکہ پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہتا کہ کہیں تمھیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاﺅںلیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے اور پچھلے تین دن سے عجیب بے چینی ہے اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاوں گا،یہی حال اب پاکستانی قوم کا ہے کہ 70سال قوم کے لٹیروں کو خون پلا رہی ہے اور اب اتنی بے چین ہے کہ ان کو خون چوسنے والوں کی ضرورت ہے۔ سابقہ حکومتوں نے اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں اورمیٹرو، اورنج ٹرین جیسے من پسند پراجیکٹ سے عوام کا اتنا خون چوس لیا جس کی ابھی تک کسی بھی ذی شعور کو سمجھ نہیں ہے ، سابقہ حکومتوں نے امداد، قرضوں اور سودی نظام کی بدولت عوام کو نہ صرف عارضی ریلیف دیا بلکہ کھاد، گیس اور بجلی جیسی اشیاءکی ہوش ربا قیمتوں کو سب سڈی کے ذریعے کم کرتے کرتے اس نوبت پہ لے آئے ہیں کہ عوام خود یہ چا ہتے ہیں کہ ان کو چاہے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑے ، ریلیف دیا جائے کیونکہ سابقہ حکومت نے آ ئی پی پیز کو جو ٹیکس چھوٹ دے رہی رکھی تھی اس سے سالانہ باون ارب کا نقصان قومی خزانے کو ہوتا رہا ‘ اس کے علاوہ تین لاکھ انڈسٹریل یونٹس کو بجلی کی مد میں سبسڈی دی ہوئی تھی جس کے سو ارب روپے ماہانہ حکومت کے کھاتے سے جاتے رہے ‘ یہ سبسڈی امیر ترین طبقہ انجوائے کرتا رہا ہے ‘دوسری طر ف بجلی کے فی یونٹ کی لاگت 14.67روپے آتی ہے جبکہ حکومت چھ روپے کی سبسڈی دے کر 8.81روپے کا عوام کو بیچتی رہی ‘اس پر مستزاد یہ کہ بجلی فروخت کرنے والی کمپنیاں چھ سے لے کر بیس فیصد تک بجلی چوری رپورٹ کرتی ہیں جس کا بل بھی اس غریب سے وصول کیا جاتا ہے جو بجلی چوری نہیں کرتا۔ سننے میں یہ آ رہا
ہے کہ موجودہ کابینہ نے آئی ایم ایف سے 7سے 8ارب ڈالر کے بیل آو¿ٹ پیکج کی منظوری دے دی ہے جبکہ 1990ءسے لے کر اب تک پاکستان 10 مرتبہ پہلے بھی یہ پیکج لے چکا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ پیکج ہی ہمارے ملک میں ہمیشہ مہنگائی کاطوفان لے کر آ تا ہے اور میں عینی شاہد ہوں اس امر کا کہ جو خوردہ قیمت ایک بار اشیائے صرف پر لکھ دی جائے وہ بڑھ توسکتی ہے کم نہیں ہو سکتی ، یعنی اس سال کے آخر میں جو قیمتیں متعین ہوں گی ان کو اس پیکج کے تین سال کے اختتام پر کیسے واپس لایا جائے گا؟موجودہ حکمرانوں سے ایک سوال ہے کہ کیا قوم ایک بار پھر گھاس نہیں کھا سکتی؟کیا ہماری قوم اب پاکستان کے لئے قربانی نہیں دے سکتی؟ کیا کوئی ایسا مر د میداں نہیں جو عوام کے جذبوں کو جگا دے ، سب ممکن ہے لیکن جذبوں میں خلوص نہیں ہے، جب سب سیاستدان ڈریکولا جیسا کردار ادا کریں گے تو ایسا ہی ہو گا ۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں ، تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں خون پینے والوں کو منتخب کر سکیں ، کیونکہ ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے کیونکہ خون نہ پلائیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے۔