کشمیر ایک بین الاقوامی متنازعہ مسئلہ ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قرارداد جو خود بھارت کی ایماء پر پاس کی گئی جس کی رو سے بھارت اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں استصواب رائے کروانے کا پابند ہے جس میں کشمیریوں کو حق دیا ہوگا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں۔ 70 سال سے بھارت اپنی اس بین الاقوامی یقین دہانی پر عمل نہیں کررہا۔UNO میں بڑے بڑے پینترے بدلے گئے روس نے ہر دفعہ ویٹو کر کے اپنی بھارت دوستی کا ثبوت دیا اور امریکہ نے خاموش رہ کر اپنی روایتی بے وفائی دکھائی۔سابق بھارتی بیوروکریٹ ، سفارت کار اور وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے ایک دفعہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارت غلط شقوں کے تحت اقوام متحدہ گیا ہے جس کے تحت ہم وہاں رائے دہی کروانے پر مجبور ہیں۔ یہاں تاریخی طور پر شیخ عبداللہ کا کردار انتہائی گھنائونا تھا۔ ازاں بعد ان کے سپوت فاروق عبداللہ نے عوامی رائے عامہ کا بہائو دیکھتے ہوئے 2جولائی 2000ء کو NDA کانفرنس میں اٹانومی ریزولیوشن لانے کا عندیہ دیا جو 26جون 2000ء میں جموں کشمیر اسمبلی میں پاس بھی کروا لیا گیا۔اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اردو میں خطاب کیا اور اُن کا خطاب مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات پر تھا۔انہوں نے انتہائی جرأت، بے باکی سے دلائل کو متاثر کن انداز میں پیش کیا اور اگر موازنہ کریں شاہ محمود قریشی کی شخصیت اور ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج کا تو اس میں بھی شاہ محمود قریشی ایک قدآور، مضبوط اعصاب اور عالمی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے مدبر سیاستدان نظر آئے۔ آج تک بے شمار لیڈروں نے جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے تقاریر کیں لیکن محترم شاہ محمود قریشی صاحب کا انداز منفرد، بے باک اور مسحور کن تھا۔آج کی دنیا مصلحت کوشی اور اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے سچائی، حقیقت اور انصاف کا ساتھ نہ دینے پر مجبور ہے۔ لیکن شاہ محمود قریشی نے ایک دفعہ وقتی طور پر ہی سہی تہلکہ مچا دیا ہے۔ حالیہ بھارتی گیدڑ بھبکیوں پر کوئی غلطی نہ کرنے کی تنبیہ اور امریکہ کو بھی سہانے سپنوں سے باہر آنے کے مشورے دئیے۔ انکے دورے کا دورانیہ کافی لمبا رہا اور انہوں نے ہر لمحے کو پاکستان کی وکالت میں بھرپور استعمال کیا۔ ویسے تو جناب ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، صاحبزادہ یعقوب علی، میاں نواز شریف ، سرتاج عزیز اور بے شمار لوگوں نے وہاں تقاریر کی ہیں۔ لیکن کشمیریوں کی صحیح ترجمانی کا یہ انداز حرّیت کانفرنس کے شرکاء نے بھی پسند کیا ہے۔ بھارت کشمیر کے مسئلے کو طول دیکر اسے قوموں کی یادداشت سے محو کرنا چاہتاہے۔ کبھی وزیر خارجہ ہندوستان ابراہیم چھاگلہ سے کہلوایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اور کبھی کرشنا مینن کے جوش خطابت نے اپنا اثر دکھانے کی کوشش کی۔ یو۔این۔او میں ہمارے نمائندوں کی سُستی، عدم توجہی اور چوکنا نہ رہنے کی وجہ سے کشمیر کاز کو ہندوستان نے ڈی لِسٹ کروانے کی بھی کوشش کی۔ دراصل ہندوستان پاکستان میں دہشت گردوں کی اسلحے، مال و دولت اور تخریب کاروں کی تربیت کرکے ہمیں مسلسل مسائل میں اُلجھائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم کشمیر ایشو کو بھول جائیں اور شملہ معاہدہ بھی اس سازش اور چال کا حصہ تھا۔شاہ محمود قریشی نے ڈیمز کی تعمیر جو کہ بین الاقوامی معاہدوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے پر ورلڈ بینک کے صدر سمیت دنیا کے دوسرے ذمہ داروں کے کان بھی صاف کئے۔ہماری نظر میں اگر ہندوستان نے اپنی ہٹ دھرمی، بربریت، ظلم و ستم، ہمسائیہ ممالک میں دہشت گردی اور آزادی کے متوالوں کے ساتھ یہی دہشت اور ظلم برقرار رکھا تو اس کی تمام منصوبہ بندی اسی شدت کے ساتھ بقول نیوٹن اسی پر ہی آئے گی۔ ہزارہا شہادتوں، ہزارہا عصمت ریزیوں، لاکھوں آبادیوں کی مسماری، جوانوں، عورتوںاور بچوں کی قتل و غارت سے کیا حرّیت کانفرنس کی پارٹیوں کی طاقت کم ہو سکی؟ کیا ان کی ایک آواز پر پورا کشمیر لبیک کہتے ہوئے جام و ساکت نہیں ہو جاتا؟ کیا ان کی ایک آواز پر نظام زندگی رُک نہیں جاتا؟ کیا ان کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ بندوقوں کی گولیوں کے سامنے سینہ سپر نہیں ہو جاتے؟ کیا ’’لے کر رہیں گے آزادی‘‘ کا نعرہ ختم ہو گیا ہے؟ کیا کشمیریوں کی عددی اکثریت کو ختم کرنے کیلئے ہندو آبادی کی منتقلی کامیاب ہو سکی ہے؟نڈیا کو اب آزادی کے متوالوں کو تخریب کار اور گُھس بیٹھئے کہنا چھوڑنا ہو گا اور جولائی 2000ء میں اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنینڈس کا بیان سامنے رکھنا ہوگا جس پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔بھارت کو کشمیریوں کی اپنی آزادی کے متعلق غیرمتزلزل جدوجہد، اَن گنت شہادتوں اور اپنے فوجیوں کی اس جبر اور ظلم و ستم کیخلاف آواز نے بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ اسی لئے وہ ہر روز سرحدوں پر چھیڑچھاڑ کرتا ہے اور اس کا آرمی چیف کھلے عام پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کا نمائندہ جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے زاروقطار روپڑا۔ جب اس نے دنیا کو بتایا کہ بھارتی فوج اب تک دس ہزار سے زائد کشمیری خواتین کی عصمت دری کر چکی ہے اور دنیا میں کوئی ان کو روک نہیں رہا۔ افسوس۔۔! اور پھر کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے سپوت نے اپنے بیان سے بھارتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُس نے کہا کہ میں 27اکتوبر کو گھر پر اُسی کمرے میں موجود تھا جہاں کاغذات پر دستخط ہوئے۔ اس نے زور دے کر کہا۔تاہم سُن لو اور اس بات کو یاد رکھو کہ ’’معاہدے سے صرف ڈیفنس، مواصلات اور فارن افیئر بھارت کے حوالے کئے گئے۔ اس وقت تمام ریاستیں بھارت میں ضم ہو چکی تھیں مگر اُن میں جموں کشمیر شامل نہیں ہواتھا۔
شاہ محمود قریشی نے حق ادا کر دیا
Oct 14, 2018