کشمیر، ڈیمز اور ڈیم فول

سنا تھا کہ سچے اور کھرے لیڈر کی یہ پہچان ہے کہ جو کچھ آپ قومی مفاد میں سوچ رہے ہوتے ہیں قائد کی زبان پر وہ صبح و شام جاری رہتا ہے۔ کئی بار ہم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے جلسے میں گئے تو جو کچھ ہم سوچتے کہ اس جلسے میں بھٹو صاحب کو ان موضوعات پر بات کرنی چاہیے وہ ان ہی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے نظر آتے تھے۔ آج کل عمران خان صاحب میں بھی ہمیں وہی جھلک آ رہی ہے۔ میرے کالم مورخہ 27 ستمبر میں اگر آپ پڑھیں تو آپ کو اقوام متحدہ میں شاہ محمود قریشی کے ہندوستان کیخلاف کشمیر کے مسئلے پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے کا تذکرہ ملے گا یہ بات ابھی حال ہی میں وزیراعظم عمران خاں صاحب نے کہہ بھی دی ہے کہ میں نے شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہندوستان کا اصل چہرہ دکھائیں ہم نے اپنے اس کالم میں اور بھی چند اہم باتوں کا ذکر کیا ہے جو اب لفظ بہ لفظ درست ثابت ہو رہی ہیں۔ 70 سال سے کشمیر کا مسئلہ اور دوسرے مسائل جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں مسلسل لٹکتے چلے آ رہے ہیں گزشتہ 10 سالہ اقتدار میں ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں ذاتی مفادات کے دائرے میں اس حد تک پھنس چکی تھیں کہ انہوں نے دشمن کے اشاروں پر قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر وہ کچھ کیا جو دشمن بھی نہیں کرسکتا تھا۔یادش بخیر دیامربھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کیلئے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی اپیل اور اسکی عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے مخصوص سیاستدانوں نے ’’کالا باغ‘‘ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے جو حربے استعمال کئے تھے وہی حربے اب استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں جو ضیاء الحق کے زمانے میں کئے گئے تھے خاص طور پر سرحد کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل فضل حق، ولی خان اور اس کی پارٹی نے کئے تھے۔ سندھ کی نام نہاد انتہا پسند اور قوم پرست جماعتیں اور پیپلز پارٹی نے بھی بھرپور ساتھ دیا جس کے نتیجے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر روک دی گئی جبکہ ڈیم کی تعمیر کیلئے ابتدائی کام مکمل ہوچکا تھا۔ سابقہ چیئرمین واپڈا شمس الحق اور دوسرے ماہرین نے ڈیم کی تعمیر کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیئے۔ لیکن سرحد، سندھ اور بلوچستان کی سیاسی قیادت نے ڈیم کو متنازعہ بنا دیا اگر کالا باغ ڈیم وقت پر بن جاتا تو آج پاکستان کو پانی کے حوالے سے جس صورتحال کا سامنا ہے، وہ پیش نہ آتی۔ دشمن کی سازش کا شکار نام نہاد پاکستانی سیاستدان جواب دیں کہ اب ٹیل کی زمینوں کو پانی کہاں سے ملے گا؟ منگلا اور تربیلا کے بعد پاکستان میں کوئی ڈیم نہ بن سکا جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیسیوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا لئے ہیں اور ہمارے دریائوں کا پانی روک لیا ہے۔ ہمارے سیاستدان ان کے معاون، ریاست کے مفادات کے محافظ بیوروکریٹ جو اب دیں کہ دشمن کی ان پاکستان دشمن کارروائیوں کا انہوں نے کیا جواب دیا۔ مذاکرات میں الجھا کر اور چند ماہ کے بعد دوبارہ مذاکرات کرنے کے بہانے دشمن کو جتنا وقت درکار تھا اس نے حاصل کر لیا ابھی چند روز پہلے اسلام آباد میں بھارتی وفد نے دو روزہ تفصیلی مذاکرات کرنے کے بعد پاکستان کے جملہ اعتراضات مسترد کر دیئے اور پھر آئندہ دلی میں مذاکرات کرنے کا وعدہ کرکے چلے گئے یہ چوہے بلی کا کھیل ستر سال سے کھیلا جا رہا ہے اور ہمارے بے ضمیر حکمران اس چکرویو میں پھنسے ہوئے ہیںکہ شائد اب کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔ طے شدہ اصول ہے کہ اگر دو فریقین کے درمیان مذاکرات ناکام ہو جائیں تو ثالثی سے مسئلہ حل کیا جاتا ہے لیکن یہ بات تو ہمارے حکمران کہتے ہی نہیں وہ تو بھارت کی مذاکرات کے وقت چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں۔ قومی مفاد کو پس پشت ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ حکومت کے دور میں تو دوستی کے نام پر حکومتِ پاکستان نے وہ کچھ کیا جس کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ سارک کانفرنس کے اسلام آباد منعقد کرنے کی مخالفت سے لے کر بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کی رنگے ہاتھوں گرفتاری تک کون سا پاکستان دشمن اقدام ہے جو بھارت نے نہیں کیا جب بھی بھارت کسی مشکل سے دو چار ہوا اس نے پاکستان کے اندر اپنے سہولت کاروں کو متحرک کرکے توجہ دوسری طرف کرا دی وزیراعظم عمران کی حلف برداری تقریب میں عمران نے اپنے تین بھارتی دوستوں کو شرکت کی دعوت دی تو انتہا پسند ہندو تنظیموں نے انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں جن سے ڈر کر دو ہندو دوستوں نے حیلے بہانے معذرت کر لی جبکہ سکھ دوست سدھو ڈنکہ کی چوٹ پر آیا اور اپنے خلاف چلائی جانے والی مہم کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ کشمیر میں جاری بھارتی فوج کی بربریت، نہتے کشمیریوں کی نسل کشی، دنیا بھر میں انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں بھی خاموش ہیں کوئی کوئی نحیف سی آواز کبھی کبھی سنائی دیتی ہے اور بس۔ ٹھیکیداری نظام کرپشن کی جڑ ہے۔ اپنے وسائل اور اپنے ماہرین کے ذریعہ ڈیموں اور دوسرے بہت سے کام کرنا ضروری ہیں تاکہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور قوم میں اعتماد پیدا ہو۔ ضرورت ہے کہ چندے کی اس مہم کے ساتھ حکومت پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کے شیئر سرٹیفکیٹ جاری کرے اور بانڈز بھی جاری کرے تاکہ جو لوگ اپنی بچت اور سرمائے کو محفوظ اور منافع بخش بنانا چاہتے ہیں انکا سرمایہ محفوظ، منافع بخش اور قومی ضرورت میں کام آئے!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...