تھنک ٹینک، ’ سُپر راء ‘یا کچھ اور …؟؟

RSS کے زیر اہتمام 2009 میں ایک تھنک ٹینک وجود میں آیا جس کا بنیادی ہدف یہ قرار دیا جاتا ہے کہ 2025 تک ہندو ازم کو سرکاری طور پر باقاعدہ بھارت کا ریاستی مذہب قرار دیا جا سکے۔ اس کے بانی سربراہ اجیت ڈووال مقرر کئے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ اسی برس موہن بھاگوت RSS کی باگ ڈور سنبھالتے ہیںاور اس کے محض پانچ سال کے بعد نریندر مودی کی زیر قیادت BJP بھارت میں بر سراقتدار آ جاتی ہے اور یہی ڈووال ہندوستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بن جاتے ہیں، بلکہ مودی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد جو سب سے پہلی تقرری کی جاتی ہے، وہ اسی شخص کی ہوتی ہے۔ پھر اگلے پانچ برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے اور پھر دوبارہ بر سراقتدار آنے کے محض سو دنوں کے اندر یعنی 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کر دی جاتی ہے، الگ جھنڈے کا قانون اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور 9 لاکھ سے زائد بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں ہر چیز کو جام کر کے تہہ و بالا کر دیتی ہے۔ اس کے بعد سے جو کچھ گذشتہ 70 روز سے ہو رہا ہے وہ انسانی تاریخ کا ایسا المناک باب ہے جس کی بابت درج کرتے ہوتے مورخ بھی یقینا شرمندگی محسوس کرے گا۔
مگر یہاں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اچانک تو نہیں ہوا بلکہ اس کے آثار بہت حد تک نمایاں تھے ۔ یہاں یہ خصوصی طور پر توجہ طلب ہے کہ 24 دسمبر 1999 میں قندھار میں ایک بھارتی طیارہ اغوا کیا گیا اور بدلے میں مبینہ طور پر کچھ یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا ۔ معروف بھارتی ٹی وی چینل زی ٹی وی کو بعد میں انٹرویو دیتے ہوتے زی نیوز کے نمائندے سدھیر چوہدری نے انکشاف کیا کہ مغویوں کی رہائی کیلئے ہونے والے مذاکرات میں اجیت ڈووال نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور بقول اجیت ڈووال ’’ دوران مذاکرات جب میں نے جہاز میں داخل ہوتے اور پھر واپس نکلتے وقت بلند آواز میں جے ہند کہا تو 191 افراد میں سے کسی ایک بھی بھارتی مسافر یا عملے نے جواب میں جے ہند نہیں کہا جس سے مجھے سخت مایوسی ہوئی اور اندازہ ہوا کہ بھارتی عوام کا مورال کس حد تک نیچے گرا ہوا تھا‘‘۔
2005 میں انٹیلی بیورو کے چیف کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈووال نے RSS میں نہ صرف باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی بلکہ عہد کیا کہ وہ اپنی تمام توانائیاں RSS اور ہندو ازم کے فروغ میں صرف کر دے گا ، اسی سلسلے کی کڑی کے طور پروویکا نند انٹرنیشنل فائونڈیشن (وی آئی ایف) کے نام سے ایک ادارہ وجود میں آیا جو بادی النظر میں تو ایک تھنک ٹینک تھا لیکن در حقیقت یہی ’’سپر رائ‘‘ تھا۔
وی آئی ایف نامی اس ’’سپر رائ‘‘ میں سوامی ناتھن گرومورتی، را کا سابق چیف اروند گپتا، سابق ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹینٹ جنرل (ر) آر کے ساہنی، ڈاکٹر شری رادھا دت، لیفٹیننٹ جنرل (ر) گوتم بینر جی، بریگیڈیئر (ر) ونود آنند، آر این پی سنگھ، ڈاکٹر وجے شکوجا، میجر جنرل (ر) پی کے ملک، تلک دویشر، سابق سفارتکار پربھات شکلا، سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبل، دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر اور داخلہ سیکرٹری انل بیجل، راجیو شکری، ڈاکٹر سوریا پرکاش، جے این یو کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر کپل کپور، بی ایس ایف کا سابق ڈائریکٹر جنرل پرکاش سنگھ، دھریندر سنگھ، سابق بھارتی آرمی چیف جنرل (ر) این سی وج، وائس ایڈمرل (ر) انیل چوپڑا، لیفٹیننٹ جنرل (ر) دویندر کمار، لیفٹیننٹ جنرل (ر) انیل آہوجا، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جے پی سنگھ، سابق ڈی جی ایئر ڈیفنس لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈاکٹر وی کے سکسینا ، جے دیپ چند، ڈاکٹر تیشو سنگھ، ڈاکٹر ارپتا مترا، ڈاکٹر نیہا سنہا، ڈاکٹر کپل پاٹل اور پریرنا گاندھی جیسے بھارت کے صف اول کے دفاعی، ثقافتی، خارجی ، داخلی اور سفارتی امور کے ماہر اور ماہر لسانیات شامل ہیں۔ یوں در حقیقت اس انتہا پسند تنظیم کو سپر راء کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ بات خاصی اہم اور توجہ طلب ہے کہ RSS کی اس تنظیم نو کے دوسرے مرحلے میں RSS سے وابستہ زیادہ شدت پسند عناصر نے دانستہ طور پر واجپائی ، جسونت سنگھ، یشونت سنہا، مرلی منوہر جوشی ، ایل کے ایڈوانی اور کے سی سودرشن کو موثر ڈھنگ سے عملاً بے اثر کر دیا۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق واجپائی ، جسونت سنگھ اور کے سی سودرشن وغیرہ کو تو باقاعدہ ذہنی طور پر مفلوج کر دیا گیا تا کہ یہ نسبتاً اعتدال پسند سمجھی جانے والی شخصیات وی آئی ایف پر انگلی نہ اٹھا سکیں۔
شنید ہے کہ سشما سوراج اور ارون جیتلی کے ساتھ بھی درحقیقت یہی کیا کیونکہ دونوں افراد ایک سے زائد جگہ پر اس ’’سپر رائ‘‘ کے بڑھتے اثر و رسوخ پر انگلی اٹھا چکے تھے۔ RSS کی صف اول کی قیادت میں محض نریندر مودی ، اجیت ڈووال، موہن بھاگوت اور امت شاہ شامل ہیں۔ راج ناتھ سنگھ کو بھی دانستہ کچھ عرصے سے سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، اس لئے انھوں نے کچھ دنوں قبل فرانس سے پہلا رافیل طیارہ وصول کرتے وقت ناریل توڑنے ، سیندور لگانے اور جہاز پر ’’اوم‘‘ کا نشان بنا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی سعی کی۔ ذرائع کے مطابق خود RSS کے کچھ حلقوں میں بھی راج ناتھ سنگھ کی اس حرکت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ایک جانب ہندو انتہا پسندوں کا یہ ٹولہ گذشتہ کچھ ماہ سے سب کچھ منظم انداز میں کر رہا تھا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ RSS اور اس کا فلسفہ اچانک وجود میں آیا ہے اور اس حوالے سے نئے نئے تاریخی حوالوں کی گردان کی جا رہی ہے گویا ؎
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالہِ جرسِ کارواں رہے

ای پیپر دی نیشن