پاک سرزمین شادباد

یہ ملک ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی۔ اہم سوال اکانومی کے ٹرن رائونڈ ہونے کا ہے۔ 30 سال میں عمران خان واحد حکمران ہیں جن کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا پاکستان کے نام ہے۔ حکومت کی دشمن نمبر ون اپوزیشن نہیں بے روزگاری ہے۔ کاروں کی سیلز ایک سال میں 40 فیصد گری ہے۔ کرولا کی سیلز 58 جبکہ ہونڈا سوک کی 68 فیصد اور سوزوکی میں ورکرز کی تعداد 10 ہزار ہے جبکہ ڈیلی ویجز کو شامل کر کے 536000 ورکرز کا روزگار ان کمپنیوں سے جڑا ہوا ہے۔ ٹرکوں کی سیلز میں 46 فیصد جبکہ بسوں کی سیلز میں 26 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ٹریکٹرز کی سیلز 29 فیصد جبکہ موٹر سائیکلوں کی سیلز 13 فیصد گھٹ گئی ہے۔ 15 فیصد ورکرز کی چھانٹی ہو چکی ہے۔ فیصل آباد میں کشیدہ کاری کے 4000 یونٹ دھڑام سے گرنے والے ہیں۔ ایسا زلزلہ آیا تو دو لاکھ مزدور گھروں میں بیٹھ جائیں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں 46 فیصد کمی ہوئی ہے۔ سندھ کی جامعات تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے سود پر قرضے لے رہی ہیں۔ صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 50 لاکھ مزید پاکستانی غربت کی کھائی میں گر گئے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازوں پر تالا پڑا ہے۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں ہزاروں اسامیاں خالی ہیں۔ بھارت میں ایمپلائمنٹ کو گیئر لگانے کیلئے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 10 فیصد کم کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیاد ہ ہے۔ پچھلے چار سالوں کی نسبت افراط زر میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ دکانوں سے سرکاری نرخ نامے غائب ہیں۔ گراں فروشوں کے خلاف حکومتی کارروائی مجسٹریٹوں کی طرف سے جرمانوں اور بعض کی گرفتاری تک محدود ہوتی ہے۔ سبزی ، پھل ، دودھ اور گوشت فروشوں نے تو اندھی مچا رکھی ہے۔ معیشت کی دگرگوں صورت حال سے حکومت سمیت ہر طبقہ پریشان ہے۔ 28 اور 29 اکتوبر کو تاجروں کے ملک گیر شٹر ڈائون کا اعلان ہوا ہے۔ آزادی مارچ اور لاک ڈائون کا اعلان حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے چیلنج ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک کا مسئلہ پھر کابینہ کے روبرو لایا گیا ہے، مسودہ قانون کی منظوری سے آئے روز سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں ختم ہو سکیں گی؟ جیسے سال میں ایک دو بار پنجاب میں بھی ینگ ڈاکٹرز ہڑتال کیلئے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے سیاسی فضاء میں ہلچل مچا دی ہے۔ اپوزیشن کے غیر معینہ مدت تک دھرنا دینے سے غیر جمہوری قوتوں کے فائدہ اٹھانے کا اندیشہ ہے۔ جنوبی پنجاب کی طرح ایم کیو ایم بھی جنوبی سندھ صوبے کا شوشہ چھوڑ کر خاموش ہو جاتی ہے۔ سندھ کے اسٹیک ہولڈرز ہونے کی دعویدار جماعتیں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ 14 سال پہلے بالا کوٹ زلزلے کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ متاثرین زلزلہ کے حالات میں تبدیلی نہ آئی۔ عمران خان نے بزرگان دین کی پیروی کرتے ہوئے پہلا لنگر پروگرام شروع کیا ہے۔ دائرہ ملک بھر میں پھیلایا جائے گا جب تک روزگار کے حالات بہتر نہیں ہوتے وزیراعظم کوشش کریں گے کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ عمران خان نے بے روزگاروں پر احسان فرمایا کہ اگر انہیں جاب نہیں ملتی، لنگر تو مل جایا کرے گا۔ یوں تو داتا دربار کے لنگر سے سینکڑوں لوگ ہر روز فیض یاب ہو رہے ہیں۔ بے گھروں کیلئے پناہ گاہیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر تک بے گھر پناہ گاہوں میں پناہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک کروڑ نوکریوں کے منتظر داتا دربار یا سرکاری لنگر خانوں سے مفت پیٹ بھر سکتے ہیں۔ شاید تن ڈھاپنے کو مفت جوڑوں کی تقسیم کا پروگرام بھی شروع ہو جائے۔ فی الحال تو ایسے ہی نئے پاکستان اور ریاست مدینہ میں رہنا پڑے گا۔ کرایہ دار کو کبھی نہ کبھی اپنا گھر نصیب ہو جاتا ہے۔ نیب کا پیپلز پارٹی سندھ کے ارکان اسمبلی مشیر اور وزراء کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے کیا یہ ممکن نہیں کہ گھیرا الیکشن سے پہلے سب کا گھیرا تنگ ہو اور نیب سے clearance کلیرینس سرٹیفکیٹ کی شرط عائد کر دی جائے۔ فنانس ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے 40 میں سے 36 نکات پر پاکستان نے عمل درآمد کیا ہے۔ منی لانڈرنگ ، دہشت گردوں کی مالی معاونت، کرپشن، منشیات کے کاروبار، فراڈ، ٹیکس چوری مال اور انسانوں کی سمگلنگ ، منظم جرائم اور بین الاقوامی مالیتی نظام کو لاحق خطرات کی روک تھام کیلئے مثبت پیش رفت کی ہے۔ ایف اے ٹی ایف 1989ء میں جی سیون ممالک کے ایما پر پیرس میں قائم کیا گیا تھا ۔ مذکورہ اقدامات گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش ہے۔ تاہم بھارت ہمیں بلیک لسٹ کروانے پر تُلا ہوا ہے۔ بھارت پوری ڈھٹائی کے ساتھ کشمیر کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ کشمیری بھارتی فوجیوں کے حصار میں قیدیوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کا کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کیلئے کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔ پاکستان سٹیل ملز کو چین کے حوالے کرنے بارے سوچا جا رہا ہے۔ ہم ایٹمی قوت ہو کر ایک سٹیل ملز نہیں چلا سکتے۔ سرکاری سکول ہم نے این جی اوز کی گود میں ڈال دئیے ہیں۔ اورنج لائن اور پاور پلانٹس بھی چینی ہی لگائیں اور چلائیں گے۔ ہمیں لنگر خانوں کی نہیں کارخانوں کی ضرورت ہے۔ پناہ گاہیں اور لنگر خانوں سے ہم ترقی یافتہ قوم نہیں کہلائیں گے۔ چینی حکومت نے سی پیک منصوبے پر تیز تر اور موثر عملدرآمد کا مطالبہ کیا تو ہم نے سی پیک اتھارٹی قائم کی ہے۔ عمران خان نے چین میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ کاش وہ 500 کرپٹ افراد کو جیل بھیج سکتے۔ چین کرپشن کے معاملے میں بہت بدلحاظ ہے۔ چینی صدر نے وزارتی سطح کے 400 افراد کو سزا دلوائی اور ہم پلی بار گینگ اور این آر او کی مصلحتوں سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ سعودی کرائون پرنس ایم بی ایس نے کیسے شاہی خاندان کے کرپٹ لوگوں سے ناجائز دولت بازیاب کرائی۔ 28 اکتوبر 2018ء کو وزیراعظم عمران خان نے پاکستان سٹیزن پورٹل کا افتتاح کرتے وقت وزرائ‘ بیورو کریٹس‘ سرکاری ملازمین اور سیاستدانوں کو قابل احتساب قرار دیتے ہوئے عوامی شکایات کے ازالے کا اعلان کیا تھا۔ شکایات کے ازالے میں وفاقی حکومت سرفہرست ہے جبکہ سندھ حکومت سب سے پیچھے ہے۔ وہ تو جابجا کچرے اور گندگی کے ڈھیر ہٹانے سے بھی عاجز ہے۔ اس طرح کے پروگرام اپنی قباحتوں اور پیچیدگیوں کے باعث ہر حکومت کے ساتھ ازخود ختم ہو جاتے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام خوش قسمتی سے چل رہا ہے۔ ایک زمانے میں دفاتر روزگار ہوا کرتے تھے۔ پھر وہ ناپید ہو گئے جیسے کبھی راشن ڈپوئوں کا بھی دور تھا۔ بیروزگاروں کیلئے ہر دور حکومت میں نئی سے نئی چاکلیٹیں متعارف کرائی گئیں۔ بے گھر کیلئے بھی خوبصورت ٹافیوں کے پیکٹ دکھائے گئے۔ بھٹو دور کا این ڈی وی پی پروگرام آج بھی یاد ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا ہر ضلع کا جامع سروے ضروری ہے۔ ہر ضلع کا ایمپلائمنٹ آفس قائم ہو‘ وہی ضرورت کے مطابق سرکاری اور نجی شعبے کو افرادی قوت فراہم کرے۔ بجلی کی مہنگائی سے صارفین پر 22 ارب 60 کروڑ کا بوجھ پڑ چکا ہے۔ 2020ء میں پاکستان کا گروتھ ریٹ تاریخ کی پست ترین سطح پر ہوگا۔ ترکماستان اور ازبکستان جیسے ملک بھی ہم سے آگے جا رہے ہیں۔ جرائم اور خاص طورپر اخلاقی جرائم میں اضافے اور گھریلو ناچاقیوں پر خودکشیوں کے محرکات پر کون غور کرے گا۔ گمشدہ بچوں کیلئے ’’میرا بچہ الرٹ‘‘ ایپ شروع کی جا رہی ہے۔ یہ ایپ بچوں کو اغوا اور زیادتی سے بچانے میں اہم ہو سکتی ہے۔ والدین بالعموم بچوں کی تربیت سے بے نیاز ہیں۔ ہر بچہ نافرمانی اور من مانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بچوں میں سگریٹ نوشی اور آورگی فروغ پذیر ہے۔ موبائل نے عشق و محبت کی نئی داستانوں کو جنم دیا ہے۔ موبائل بچوں کے ہاتھ میں لوسٹوری اور بعدازاں بچیوں کو خوار اور بلیک میل کرنا گیٹ وے ثابت ہوا ہے۔ یہ تو اللہ نے بھی کہا ہے انسان بڑا جلد باز ہے۔ لوگ واقعی میری توہین کرتے ہیں۔ ان کی بے صبری ٹریفک سگنل پر ہر روز دکھائی دیتی ہے۔ جب بے صبرے چند سیکنڈ کیلئے بھی ریڈ لائٹ کے گرین لائٹ میں بدلنے کا انتظار نہیں کرتے‘ مزارات کے باہر لنگر کی دیگ پر کیسے جھپٹتے ہیں۔یہ چاہتے ہیں حکمرانوں کے ہاتھوں معجزے رونما ہو حالانکہ معجزے صرف انبیاء کے ہاتھوں رونما ہوتے تھے۔ صرف 13 ماہ بعد کہتے ہیں کدھر ہے نیا پاکستان۔ لوگوں کے رویئے بدلیں گے تو نیا پاکستان دکھائی دے گا۔ رشوت خور رشوت سے توبہ کریں گے‘ گلیاں بازار سڑکیں صاف رکھیں گے‘ گداگری سے باز آئیں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے پرچے‘ جھوٹی گواہیاں اور جھوٹے مقدمے ختم کریں گے۔ ملاوٹ سے توبہ کریں گے‘ ذخیرہ اندوزی‘ منافع خوری سے باز آئیں گے۔ بازار حسن میں دلالی سے توبہ کریں گے‘ جوئے خانوں پر تالا ڈالیں گے۔ ڈاکٹر قصاب بن کر ہر حاملہ کو زچگی کیلئے آپریشن تھیٹر لے جانا بند کریں گے‘مہنگے ٹیسٹوں میں نہیں الجھائیں گے۔ ایک دوسرے کے مسلک‘ عقیدے اور مذہب کا احترام کریں گے کفر کے فتوے لگانا بند کریں گے‘ خدا نے کسی کو ای میل بھجوا کر نہیں بتایا کہ فلاں ٹھیک ہے اور فلاں غلط ہے۔ جو بھی قرآن اور محمد رسول اللہؐ کو آخری نبی مانتا ہے‘ اسے کیسے کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا اللہ نے کسی کو بھی کسی پر اپنی پسند نا پسند کے مطابق کفر کی مہریں لگانے کی اجازت دی ہے۔ نیا پاکستان کا مطلب یہی ہے کہ معاشرے صاف ستھرا اور امن کا گہوارہ بن جائے۔ مرغی والا کم تولتا ہے‘ لوگ شادی بیاہ پر فضول خرچیاں کرتے ہوٹلنگ پر پیسہ لٹاتے ہیں۔ کیا ایسی باتوں کا درس عمران خان نے دیا ہے۔ کیا گھروں میں والدین کی نافرمانی کیلئے وزیراعظم کہہ رہا ہے۔؟

ای پیپر دی نیشن