نماز اورمسلم معاشرے کی تشکیل

نماز جہاں مسلمان کی شخصیت ان خطوط پر تعمیر کرتی ہے جو اسلام کو مقصود ہی وہیں پر مسلم معاشرے کو ایک تصور جماعت بھی عطاء کرتی ہے۔
نماز کے ذریعے سے ایک دائرے کے مسلمانوں کی باہمی ملاقات کا ایک مستقل نظام تشکیل پاگیا ہے۔ اہل محلہ پانچ وقت ایک دوسرے سے مل لیتے ہیں۔ جمعہ کا اجتماع اس سے بھی بڑا ہے ۔عیدین کے اجتماع شکوہ مسلمین کا بڑا اظہار ہیں۔
انسان کی سرشت میں ہے کہ میل ، ملاقات کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو ایک دوسرے سے انسیت ہوجاتی ہے۔ طبیعت میں مناسبت پیداہونے لگتی ہے۔ نماز کی ملاقات تو ایک پاکیزہ اور طیب ماحول میں ہوتی ہے۔ انسان ایک دوسرے کے معاملاتو مسائل سے واقف ہوسکتاہے ۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوسکتاہے۔ اور ہمدردی وغم خواری کی ایک فضاء بن سکتی ہے۔ دور نبوی میں بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ مسجد نبوی میں حاضری ایک دوسرے کی امداد وتعاون کا باعث بنی، اصحاب صفہ تعلیم وتربیت کے لیے مسجد نبوی سے ملحق چبوترے پر قیام پذیر تھے۔صحابہ کرام ان کے لیے کجھور کے خوشے لے آتے اور مسجد میں لٹکا دیتے ۔ بسااوقات چاشت کے وقت دسترخوان بچھادیا جاتا اور بہت سے لوگوں کی بھوک کا مداوا ہوتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام غرباء ومساکین کو نماز سے فارغ ہوکر اپنے گھر لے جاتے اور ان کی ضیافت کا اہتمام فرماتے۔
بھائی چارہ اور الفت ومحبت کی اس فضاء کے ساتھ ساتھ مسجد ہمیں مساوات کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوجاتے ہیں ۔یہاں عرب وعجم ،کالے ،گورے ،رومی،حبشی کی کوئی تفریق نہیں،سب ایک صف میں برابر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اللہ کے حضور میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
جماعت کی امامت کا معیار بھی کوئی خاص نسل وخاندان ،حسب، نسب ،قومیت اور دولت نہیں بلکہ امامت کا معیارتقوی وطہارت ،علم ودانش اور فضل وکمال ہے۔ چھوٹے بڑے،امیر وغریب ،آجرواجیر،منتظم وملازم سب ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز اداکرتے ہیں۔ اسلام میں منصب امامت کے لیے کسی خاص خاندانی کی یا نسل کی شرط نہیں۔بلکہ ہر مسلمان اپنی محنت ،ریاضت ،علمی انہماک اور اوصاف حمیدہ سے یہ منصب حاصل کرسکتا ہے۔
جب کسی شخص میں صفات امامت پائی جاتی ہیں تو اس کی اقتداء کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو نماز اطاعت امیر کا درس دیتی ہے۔ لیکن اسلام کے دیگر مظاہر کی طرح یہ سبق بھی ادھورا نہیں ہے۔ امامت کو قابلیت اور اہلیت سے مشروط کیا گیا ہے۔ اور مقتدی اپنے امام سے کسی صورت میں آگے نہیں بڑھتے لیکن جہاں اس سے تسامع ہوجاتا ہے وہاں اسے آداب وقیود اور طریقہ کار کے اندر رہتے ہوئے ’’لقمہ‘‘بھی دیتے ہیں ۔یہی اسلام کا مزاج ہے۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی

ای پیپر دی نیشن