گلگت  بلتستان بارے سردار عتیق سے مکالمہ

Oct 14, 2020

اسد اللہ غالب

میرے سوال کے جواب میں سردار عتیق نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی خاطر چھ لاکھ کشمیریوں کی جانوں کی قربانی دی ہے۔ آج پاکستان کا جو بھی مفاد ہو گا۔ ہم بلا  تامل اسے قبول کرنے کوتیار ہیں۔
مگر ان کا کہنا  تھا کہ جب بات چل نکلی ہے تو  بعض حقائق ضرور سامنے رکھنا چاہوں گا۔ پہلی پھر وہی بات کہ قائد اعظم نے کشمیر میں مسلم لیگ قائم کرنے کے بجائے مسلم کانفرنس  پر اعتماد کا اظہار کیاا ورا سے اپنی جماعت قرار دیا۔ دوسری مولانا مودودی پر بہت دبائو تھا کہ جماعت اسلامی کو آزاد کشمیر میں قائم کیا جائے  مگر ان کا کہنا تھا کہ مسلم کانفرنس کے ہوتے ہوئے کونسا کام ہے جو ہم وہاں کرنے جائیں۔ ان کے دور امارت تک جماعت یہاں نہیں آئی ۔پھر پاکستان کی ساری جماعتوںنے آزاد کشمیر کا رخ کر لیا اور ہمارے لوگ سیاسی طور پر تقسیم ہو گئے۔
ایک نکتہ ذہن نشین کر لیں کہ ریاست جموں  وکشمیر کی قسمت کا فیصلہ اسی ریاست کے باشندوں نے کرنا ہے۔ یہ اصول سلامتی کونسل کی قراردادوں میں طے ہو چکا ہے،۔ ہماری قسمت کا فیصلہ نہ پاکستان پیپلز پارٹی کر سکتی ہے۔ نہ پاکستان مسلم لیگ اور نہ پاکستان تحریک انصاف۔ مگر پاکستان کا کوئی ادارہ بہتر مشاورت کے لئے ان کے خیالات معلوم کرنا چاہے تو ہمیں ا س پر کیاا عتراض ۔بس بنیادی ا صول یہ ہے کہ جب کبھی استصواب ہو گا تو اس میں ریاست جمووکشمیر کے عوام حصہ لیں گے۔
کشمیر کے آزاد خطوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوششیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ بھٹو صاحب نے  اعلان کیا تھا کہ مشرقی پاکستان ہاتھ سے چلا گیا۔ میں پاکستان کو  گلگت  بلتستان کا صوبہ بنا کر تحفے میں دوں  گا۔ انہوںنے چار روز تک آزاد کشمیر کا دورہ کیا  مگر یہاںکارد  عمل دیکھ کر میر  پور میں جہاں ان کی پارٹی میں نورحسین نے شمولیت اختیار کی تھی توصاف کہا کہ وہ  اپنی اس کوشش کو ترک کر رہے ہیں کیونکہ کشمیری عوام اس مرحلے پر پاکستان میں شمولیت کے حق میں نہیں ہیں۔ پھر بے نظیر صاحبہ اور زرداری صاحب نے بھی گلگت  بلتستان کی آئینی  حیثیت تبدل کر نے کی کوشش کی مگر انچاس میں ایک معاہدہ ہوا تھا  جس پر حکومت پاکستان کی طرف سے مشتاق گورمانی نے  دستخط کئے۔ مسلم کانفرنس کے صدر سردار غلام عباس نے  بھی اس پر دستخط کئے اور  مسلم کانفرنس کے نامزد صدر سردار ابراہیم کے بھی اس  پر ستخط ہیں یہ معاہدہ کراچی کہلاتا ہے۔ اصل میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کو اختیار دیا تھا کہ وہ آزاد ریاست میں  جیسے چاہے صدر نامزد کرے اور  باقی آزاد علاقوں کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے ا سلئے معاہدے پر مسلم کانفرنس کے صدرا ورا ٓزاد کشمیر کے صدر دونوںنے اس پر دستخط کئے اورا س کی رو سے شمالی علاقوں گلگت  بلتستان کو پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں دیا گیا۔ مگر یہ علاقہ اقوام متحدہ کے نقشے میں آج تک متنازعہ حیثیت کا حامل ہے اورا سکی قسمت کا  مستقل فیصلہ استصواب کے ساتھ ہی  ہو گا، اس نکتے کو ایک اور زاویئے سے سمجھ لیجئے کہ  ایوب خان نے ریاست کشمیر کا کچھ علاقہ چین کے انتظام میں دیا،۔ اس  کے لئے بھی ایک معاہدہ ہوا جس پر ایوب چواین لائی کے دستخط ثبت ہیں  ۔ا س معاہدے کی شق پانچ کے مطابق جب استصواب کے ذریعے باقی متنازعہ علاقوں کا فیصلہ ہو گا تو  چین کے زیر انتظام آنے والے علاقے پر بھی ا س  فیصلے کا اطلاق ہو گا۔ چین کو دیا جانے و الا علاقہ اکسائے چین کہلاتا ہے۔ دو ہزارا ٓٹھ میں یورپی یونین نے کشمیر کے مقدمے کی سماعت کی۔ اس میں پاکستان کی طرف سے عباس جیلانی۔ بھارت کی طرف سے اشوک مہتہ اور جھے مدعو کیا گیا۔ میںنے میزبان کرس ڈیوڈ سے پوچھا کہ کشمیر کے باقی علاقوں کے نمائندے کہاں ہیں تو انہوںنے کہا کہ آزاد علاقوں کے نمائندوں کے طور پر صرف آپ کو مدعو کیا گیا ہے۔
یو این جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کا تناسب تبدیل کر کے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے ۔ بھارت پر اس کے لئے مقدمہ چلایا جائے، ظاہر ہے بھارت اگر ایک غلط کام کر رہا ہے تو پاکستان ایساکیوں کرے گا۔ اس سے پاکستان  کی اخلاقی حیثیت متاثر ہو گی اور پاکستان عالمی ا داروں پر وہ دبائو نہیں ڈال سکتا جیسے ا س وقت ڈال رہاہے۔
اگر گلگت  بلتستان کو صوبہ اسلئے بنانا ہے کہ وہاں ترقی تعمیر کے لئے کام کئے جا سکیں تو ا سوقت ہی کام کرنے میں کونسی رکاوٹ ہے اور اگر صوبہ بنانے سے ہی ترقی ہو سکتی ہے تو بلوچستان تہتر برسوں سے پاکستان کا صوبہ ہے ا سکی حالت کیوںنہ بدلی جا سکی اور  وہاں کے لوگوں کی شکایات رفع کیوںنہیں کی  جاسکیں۔ 
میری معلومات کے مطاقب آرمی چیف نے پاکستان کے پارلیمانی لیڈروں سے واضح طور پر کہا  ہے کہ ہمیں  اس اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے ہمارا کشمیر کیس کمزور ہو سکتا ہو تو مجھے معلوم نہیں کہ پاکستان کے پارلیمانی لیڈر کیا کہانیاںگھڑ رہے ہیں اور کیوں گھڑ رہے ہیں۔ اگر وہ آرمی چیف کو بدنام کرنا چاہتے ہیں تو ان کا یہ ایجنڈ ہ اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
میں اس موقف پر قائم ہوں جو میرے والد مجاہداول نے پہلی بار صدارتی الیکشن جیت کر کشمیریوں کو دیا تھا کہ کشمیر بنے گا پاکستان،۔ انہوں نے نعرہ اسکولوں کے بچے بچے تک پہنچایاا ور مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کی سینیٹ میں یہی نعرہ کشمیر بنے گا پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود  قریشی نے بھی بلند کیا ہے۔  میں بھی ا س نعرے پر دل و جان سے قائم ہوں اور پاکستان اپنے  قومی مفاد میں  جو فیصلہ کرے، اسے خوش دلی سے قبول کروں گا۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں