عوام کو فوری ریلیف دیکر اپوزیشن کی احتجاجی تحریک غیرمؤثر بنائی جا سکتی ہے

حکومت کا اپوزیشن کے جلسوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کافیصلہ اور اپوزیشن کی ذمہ داری
حکومت نے اپوزیشن کے پرامن جلسوں کے انعقاد میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم سیاسی جماعتوں کو پرامن جلسے منعقد کرنے کی ضمانت دینا ہوگی۔ اس سلسلہ میں میڈیا رپورٹس میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پرامن جلسوں کے انعقاد کیلئے ضلعی انتظامیہ کے مقرر کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرایا جائیگا اور حکومت کیخلاف احتجاج کی آڑ میں کسی کو انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کی چھ رکنی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں جس میں حکومت کے ترجمانوں نے بھی شرکت کی‘ اپوزیشن کے احتجاج سمیت سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ پی ڈی ایم کو مخصوص مقامات پر جلسوں کے این او سی جاری کئے جائینگے اور ان جلسوں کے ذریعے عام لوگوں کی زندگی میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج اور جلسے کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ انکے بقول اپوزیشن کی تحریک عوام کی نہیں بلکہ سیاسی اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہے۔ عوام کو سیاست دانوں کی کرپشن بچائو تحریک میں کوئی دلچسپی نہیں۔ 
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اسکے انتخابی منشور اور دعوئوں کے برعکس عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوئے ہیں اور ہر آنیوالے دن عوام کو مہنگائی کے نئے جھٹکے لگتے ہیں جس سے عوام کے دلوں میں اضطراب پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ چونکہ حکومت کے کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈہ کے تحت بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور عہدیدار احتساب کی زد اور نیب کے شکنجے میں آئے ہیں جس پر اپوزیشن عوام کو حکومت مخالف تحریک کیلئے استعمال کرنے کے موقع کی تلاش میں تھی۔ اگر حکومت عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کا حل پہلی ترجیح بناتی اور انہیں تبدیلی کے ثمرات ریلیف کی صورت میں ملنا شروع ہوجاتے تو عوام کے ذہنوں میں حکومتی گورننس کے حوالے سے کسی قسم کی بدگمانی پیدا ہوتی نہ اپوزیشن کو انہیں حکومت مخالف تحریک کیلئے متحرک کرنے کا موقع ملتا تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار کے دو سال بعد بھی عوام کے روزمرہ کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں اور حکومت ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی شکل میں موجود مافیاز کا گٹھ جوڑ توڑنے میں قطعی ناکام ہے اور اسکے برعکس حکومت خود بھی پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ ادویات کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کررہی ہے تو احتساب کی کارروائیوں سے زچ ہوئی اپوزیشن کو بھی حکومت کیخلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔ 
اس سلسلہ میں گزشتہ ماہ اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں نیا اپوزیشن اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) تشکیل دیکر مرحلہ وار حکومت مخالف تحریک کا شیڈول طے کیا گیا جس کے تحت احتجاجی جلسوں اور لانگ مارچ کے علاوہ اسمبلیوں میں اجتماعی استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا تو اس سے قومی سیاست میں بلیم گیم کے کلچر میں شدت پیدا ہوگئی۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے لندن سے مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے دیگر اجلاسوں میں ویڈیو لنک خطاب کا سلسلہ شروع کرکے اپنے بیانیہ کے مطابق سخت لائن اختیار کی تو اس سے سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا اور حکومت کی جانب سے میاں نوازشریف کی کوریج پر پابندی عائد کرکے اپوزیشن کی تحریک کو بزور دبانے کا بھی عندیہ دیا جانے لگا تو اس سے سسٹم پر زد پڑنے کا خطرہ بھی لاحق نظر آنے لگا تاہم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عساکر پاکستان کے سیاست سے قطعی لاتعلق ہونے کا دوٹوک اعلان کرکے جمہوریت کو مستحکم بنانے میں معاونت کا عندیہ دیا جس سے اب بادی النظر میں ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کی تو گنجائش نہیں رہی البتہ اپوزیشن کو عوام کے گھمبیر ہوتے مسائل کی بنیاد پر حکومت مخالف تحریک کیلئے ضرور تقویت مل رہی ہے۔ 
اس حوالے سے حکومت کے پاس دو ہی آپشن موجود ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عوام کو روٹی روزگار کے مسائل میں فوری ریلیف دیکر اپوزیشن کی تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دے اور دوسرے یہ کہ ریاستی طاقت کے ذریعے اپوزیشن کی تحریک بزور دبا دے۔ اس سلسلہ میں اب تک کے حکومتی اقدامات و اعلانات سے اپوزیشن کی تحریک بزور دبانے کی پالیسی اختیار کرنے کا ہی عندیہ ملتا رہا ہے جبکہ ایسے اقدامات سے شہری آزادیوں سے متعلق بنیادی انسانی حقوق پر زد پڑتی ہے تو اس سے منتخب سول حکمرانی کا تشخص خراب ہوتا ہے۔ اسکے ردعمل میں حکومت مخالف تحریک کے پرتشدد ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس سے کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے کے راستے نکلنا بھی بعیدازقیاس نہیں رہتا۔ حکومت اور اپوزیشن میں شامل کوئی بھی جماعت ایسی سیاست کی یقیناً متحمل نہیں ہو سکتی جو جمہوریت کو نقصان پہنچانے پر منتج ہو سکتی ہو۔ حکومتی پالیسیوں کیخلاف جلسے جلوسوں کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرنا بہرصورت اپوزیشن کا آئینی استحقاق ہے اور حکمران پی ٹی آئی اپنے اپوزیشن کے دور میں خود بھی حکومت مخالف جلسوں‘ جلوسوں اور طویل دھرنوں کی سیاست کرتی رہی ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کیلئے فری ہینڈ دینے اور اسکے احتجاجی جلسوں میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ خوش آئند اور جمہوریت کی عملداری کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔ ملک کی سلامتی کو درپیش موجودہ چیلنجوں کی روشنی میں یقیناً اپوزیشن بھی ایسا راستہ اختیار نہیں کریگی جس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو اور ہمارے دشمن کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ حکومت کیلئے 16؍ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں منعقد ہونیوالا مسلم لیگ (ن) کا جلسہ ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر اسکے انعقاد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی گئی تو یقیناً اس سے سیاسی رواداری کی فضا مضبوط ہوگی جس کی آج ملک کو ضرورت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...