شکرگڑھ سے چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے بزرگ سیاستدان مولانا غیاث الدین سے دو دہائیوں سے ادب و احترام والا تعلق ہے خلوص بھری اس دوستی کی وجہ سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی بنے….1998میں شکرگڑھ کی ایک ختم نبوت کانفرنس میں وہ " مسلکی گھٹن "کے باوجود مولانا چنیوٹی کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے چلے آئے اور سب کے دل جیت کر چل دئیے…ادب کا یہ منظر بہت اچھا لگا اور احترام لازم ہو گیا…..پھر چند برس پہلے مدینہ کے سفر میں انہیں پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا…شہر رسولؐ میں ختم نبوت کے پہریدار ڈاکٹر احمد علی سراج کی مجلس میں آقا کریمؐ کے ایمان افروز ذکر پر ان کی ہچکیاں دیکھ کر آنکھیں برس پڑیں…مدینے کے ادب اور عشق رسولؐ کا یہ منظر بہت ہی بھلا لگا اور احترام لازم کر لیا…دوستی کی ایسی بنیاد اٹوٹ انگ ہوتی ہے…باقی سب قصے ،کہانیاں اور فسانے ہیں.بھاڑ میں جائے سب کچھ ،ختم نبوت کا جو چوکیدار ہے ہمارا وہ امام ہے….!!!! پنجاب اسمبلی میں میاں جلیل شرقپوری سے بدتمیزی پر ایک نوٹ لکھا تو نارووال سے قابل صد احترام بزرگ اخبار نویس ملک سعید الحق نے لکھا کہ لگے ہاتھ کچھ مولانا کے بارے میں بھی.احسن اقبال کے کزن اور ہمارے دوست رکن پنجاب اسمبلی رانا منان نے بھی استفسار کیا کہ آپ نے مولانا کو مشورہ کیوں نہیں دیا؟؟؟؟مولانا سے ان کی مراد مولانا غیاث الدین تھے…تو سوچا کچھ عرض کر ہی دوں… پارٹی ڈسپلن کی بات اپنی جگہ مقدم مگر دل کی بات یہ ہے کہ مولانا غیاث الدین بتا کر بنی گالا جاتے تو رک جانے کا مشورہ دیتا .پوچھ کر وزیر اعلی اور گورنر سے ملتے تو بھی نہ جانے کا کہتا….میری معلومات کے مطابق وہ ایک صوبائی وزیر سے تنگ آکر وزیر اعظم عمران کو ملے اور پولیس گردی کیخلاف وزیر اعلی کا دروازہ کھٹکھٹایا… عثمان بزدار اپنے والد فتح محمد بزدار کا ساتھی ہونے کے باعث مولانا کا لحاظ بھی کرتے ہیں… اگرچہ مولانا کے موقف میں کافی جان ہے تاہم اصول اور ضابطے کی بات یہ ہے کہ انہیں پارٹی قیادت کی اجازت کے بغیر کوئی" نقل و حرکت "نہیں کرنی چاہئے تھی….اب جب کہ ن لیگ نے انہیں پارٹی سے نکال دیا ہے تو اصول کی بات یہ ہے کہ وہ اپنا علیحدہ گروپ بناکر اسمبلی جائیں یا استعفیٰ دیکر دوبارہ جس نشان پر مرضی الیکشن جیت کر ایوان میں آئیں۔ اب آتے ہیں مولانا کی سیاسی تاریخ پر کہ وہ ن لیگ کے کتنے قرض دار ہیں اور ن لیگ انکی کتنی مقروض ہے؟ دلچسپ بات ہے شریف برادران اور مولانا کا سیاسی بیج ایک ہی ہے۔ .1985 سے اب تک مولانا اور شریف برادران جب جیتے ایک ہوگئے۔ سائیکل سوار مولانا 85 میں آزاد ہی جیت گئے اور وزارت اعلیٰ کیلئے ووٹ میاں نواز شریف کو دیا.انہوں نے میاں شریف کا "مراعاتی پیکیج" بھی شکریے کے ساتھ واپس کر دیا کہ میں اپنی برادری یعنی علما کے چہرے کو داغدار نہیں کرنا چاہتا .2013ء کے انتخابات میں الیکشن جیت کر ن لیگ کو اس حلقے میں کوئی بیس پچیس سال بعد عزت دلوائی.ادھر نواز شریف وزیر اعظم‘ شہباز شریف وزیر اعلی بنے جبکہ مولانا ایم پی اے بن کر پھر شریف برادران کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔.2018میں پی پی 47شکرگڑھ کا الیکشن بڑا کرشماتی تھا..دانیال عزیز کی فیور پر ن لیگ کا ٹکٹ پھر مولانا کو مل گیا جبکہ احسن اقبال کے پسندیدہ لیگی رہنما حافظ شبیر بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئے.پی ٹی آئی نے ڈاکٹر نعمت کو ٹکٹ دیدیا. چیئرمین بلدیہ چودھری انعام الحق کے بڑے بھائی سابق پی پی ایم این اے چودھری انوارالحق بھی آزاد ہی اکھاڑے میں کود پڑے۔ انکے علاوہ درجن بھر اور امیدوار بھی مدمقابل تھے.پھر سب نے دیکھا کہا کہ اللہ جسے چاہے کیسے عزت دیتا ہے۔ جب نتیجہ آیا تو سب چھانگے مانگے انگشت بدنداں رہ گئے…..پیسے والے ہار گئے.مسجد کا سفید پوش بوریا نشین مولوی ایک بار پھر جیت گیا..اب واپس آتے ہیں اصل موضوع کی طرف .ن لیگ اور مولانا کا ’’رومانس‘‘ بلا مبالغہ آپ کے سامنے رکھ دیا.کون کس کا کتنا مقروض ہے… .فیصلہ آپ کریں ۔میرا نہیں خیال مولانا کسی لالچ یا خوف سے کسی حکومتی شخصیت کو ملنے گئے.صوبائی وزیر اور ضلع کے پولیس سربراہ کے بارے میں انکے تحفظات جینوئن لگتے ہیں۔ ن لیگ کو لال پیلا ہونے کے بجائے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی وضاحت مان لینی چاہئیے تھی کہ یہ دو چار دن کی بات نہیں برسوں کے یارانے تھے...اتنی جلدی کوئی باغی یا لوٹا نہیں ہوجاتا۔. اب اگر وہ قائل نہیں ہوئے تو مولانا کو راہیں جدا کر لینی چاہئیں..اتنی لمبی سیاسی رفاقت کے بعد بھی بندہ معتبر نہ ٹھہرے تو" خدا حافظ" ہی بہتر آپشن ہے۔