اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے سندھ میں لوڈ شیڈنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ نجی کمپنیاں حکومت کی غلطیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ نہ حکومتی اداروں میں صلاحیت ہے نہ یہ کچھ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ جو رپورٹس جمع کرائی گئی ہم نے ساری پڑھ لی ہیں، لیکن کراچی میں صورتحال تو ویسے کی ویسی ہے۔ نہ وفاقی حکومت کچھ کررہی ہے نہ ہی بجلی والے کچھ کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت نے ٹریبونل بنانا تھا ابھی تک نہیں بنا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وفاق نے اپنی ذمہ داری ادا کرنی تھی جو نہیں کر رہی۔ چیف جسٹس نے متعلقہ حکام سے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں آپکو بتائیں کام کیسے کرنا ہے۔ آپ لوگوں میں اہلیت نہیں اسلئے آپ کو ہائی جیک کیا ہوا۔ کیاآپ کے عہدے پر رہنے سے کسی پاکستانی کو رتی بھر کا فائدہ ہورہا ہے؟۔ خالی کاغذ بھرنے سے کیا ہوتا ہے آپ کو بھی پتہ ہے آپ کیا کر رہے ہیں۔ جب کام میں خامیاں چھوڑتے ہیں تو پھر عدالت سے نوٹس آتے ہیں۔ تمام اداروں کو اربوں روپے ادا کیے جارہے ہیں۔ وہ عوام کی سہولت کے لیے کیا کر رہے ہیں؟۔ عوام بھی آپکے سامنے ہائی جیک ہوئے پڑے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کراچی میں بجلی کا مسئلہ کتنا حل ہوا ہے؟۔ بجلی کا جو مسئلہ چل رہا ہے اس پر کیا کیا جائے؟۔ آج بجلی کی قیمت بھی بڑھا دی گئی۔ متعلقہ اداروں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں۔ وفاقی حکومت نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہے جو نہیں کیں، نیپرا اور پاور ڈویژن والے کیا کررہے ہیں؟۔ پی ٹی ڈی سی اور این ٹی ڈی سی کے محکمے کیا کر رہے ہیں؟۔ یہ محکمے والے لوگوں کو کیا سہولت فراہم کررہے ہیں۔ تمام لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ آپ کراچی میں بجلی کی کیپسٹی کیوں نہیں بڑھاتے؟۔ چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کے ایم ڈی سے کہا کہ آپکا کیا ارادہ ہے؟۔ کراچی کو کب بجلی دیں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کے الیکٹرک والے کہتے ہیں نو سو میگاواٹ کیپسٹی بڑھانے کی درخواست نیپرا کو دی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ نو سو میگاواٹ کو سسٹم میں شامل کرنے کے لیے نیپرا نے کیا کیا؟۔ چیئرمین نیپرا نے جواب دیا کہ کے الیکٹرک نے خود ہی اسکے خلاف عدالت سے حکم امنتاعی لیا ہوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ چیئرمین نیپرا، سی او کے الیکٹرک کدھر ہیں۔ سی او صاحب آپ ابھی تک عہدہ پر ہی ہیں؟۔ بتایا جائے کے الیکٹرک کا اصل مالک کون ہے؟۔ کے الیکٹرک کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ کے الیکٹرک کے نو ڈائریکٹرز ہیں۔ سعودی اور کویتی بزنس گروپس کا اشتراک ہے۔ دونوں گروپس نے چار سو ملین انویسٹ کیا ہوا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بالآخر ان گروپس کے پیچھے اور مزید گروپس ہوں گے آخر میں یہ کمپنی ممبئی میں لینڈ کرے گی۔ اگر آپ ملک کے وفادار ہوتے تو کراچی کا یہ حال نہ ہوتا۔ آدھا کراچی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کو جاگتا ہے کراچی میں ہیٹ ویو آرہی ہے اور لوگوں کو بجلی نہیں مل رہی۔ وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت نہیں کہ یہ کمپنی ممبئی کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے ایسا ہی سنا ہے آخر میں کوئی ممبئی والا نکلے گا۔ سنا ہے شرما نامی کوئی بندا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہاکہ یہ بات درست نہیں کے الیکٹرک کے تمام لوگوں کی ایجنسیوں نے کلیئرنس دی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کوئی اسلام آباد یا لاہور کراچی میں بھی بیٹھا ہو۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیوں نہ ایم ڈی کے الیکٹرک کو جیل بھیج کر بھاری جرمانہ کردیں۔ اب کے الیکٹرک کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے لوگوں کے مسائل حل کریں۔ اس پر وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ گیس اور فرنس آئل کی سپلائی نہ ملنے سے مسائل پیدا ہوئے۔ لوگوں کو چولہے جلانے کے لیے گیس نہیں مل رہی۔ چیف جسٹس نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ہر بات وفاقی حکومت پر آکر رکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہم کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لیکن وفاق بھی اپنی ذمہ داری کا ایک کام بھی نہیں کر رہا ہے ایک محکمہ نہیں تمام محکموں کا یہی حال ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو بریفنگ دینے کی استدعاکی گئی جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کی استدعا منظور کر لی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ آئندہ دو ہفتوں میں وفاقی حکومت عدالت کو بریفنگ دے گی۔ عدالت نے نیپرا کے الیکٹرک سے چار ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اسد عمر اور عمر ایوب آئندہ کے پلان سے متعلق بریفنگ دیں گے۔ اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے تابش گوہر کو معاون خصوصی لگایا ہے وہ پہلے کے الیکٹرک میں رہ چکے ہیں۔ فیصل صدیقی نے مزید کہاکہ وکیل تابش گوہر کو ایسے وقت میں لگایا گیا جب کے الیکٹرک کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق جسٹس گلزار نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی تقسیم ممبئی سے کنٹرول ہو رہی ہے۔