وہ بہت دیر سے اپنے لیے جوتا پسند کر رہی تھی۔ ایک تو اس کے پاؤں کی ساخت ایسی تھی کہ جوتا پورا نہیں آتا تھا جو پورا آتا تھا اس کا ڈیزائن پسند نہیں آتا تھا۔سیلز مین بھی تنگ آ چکا تھا لیکن پیشہ ورانہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف جوتے نکال کر خاتون کے سامنے رکھتا جا رہا تھا۔آخر ایک جوتا خاتون کے پاؤں میں پورا آ گیا اور پسند کے مطابق بھی تھا۔اس نے جوتا پیک کرنے کے لیے کہہ دیا۔ سیلز مین جوتا ڈبے میں ڈال ہی رہا تھا کہ خاتون نے اسے روک دیا۔ اور کہا کہ اس سے پہلے جو جوتا پسند آیا تھا وہ دے دیں۔ سیلز مین نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو خاتون کہنے لگیں کہ یہ جوتا مجھے پسند آگیا تھا لیکن اس کا رنگ سبز ہے۔ جو گنبد خضریٰ کا رنگ ہے اس لیے میں نہیں چاہتی کہ سبز رنگ کا جوتا پاؤں میں پہنوں۔
گنبد خضریٰ سے محبت اور عقیدت کا وہ احساس خاتون کے دل میں اجاگر ہوا تھا۔ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جن کے دل میں عقیدت و محبت کا ایسا احساس جا گزیں ہوتا ہے؟۔ ہمارے پرچم کا رنگ بھی سبز ہے۔ قومی پرچم کی عزت اور سبز رنگ کا تقدس ہم سے دوہرے احترام کا تقاضا کرتا ہے مگر یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کی جس طرح ہم بے حرمتی کرتے ہیں وہ ہمارا قومی المیہ ہے۔ خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت اور سبز گنبد خضریٰ سے نسبت کے دعوے اپنی جگہ مگر ہمیں اپنے قول و فعل سے بھی اس کا ثبوت دینا چاہیے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقیدت اور جذبے سے منائیں، محافل نعت منعقد کریں، خوب لنگر تقسیم کریں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے لیکن یہ احتیاط بھی کریں کہ آیات و احادیث، درود و سلام پر مشتمل اور گنبد خضریٰ کی تصویروں والے بینرز کی بے ادبی نہ ہو۔ہمارے کسی قول و عمل سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمارے دعوے کی نفی نہ ہوتی ہو۔ ہم غیر مسلموں کی طرف سے توہین رسالت اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے کی سازشوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور یہ ضرور کرنا چاہیے بلکہ ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ کسی کو ایسی گستاخی کی جرأت ہی نہ ہو لیکن ہمیں اپنا بھی محاسبہ کرنا چاہیے۔ہمیں مقدس و متبرک ناموں کا احترام کرنا چاہیے اگر اپنے اداروں، کمپنیوں، دکانوں کے نام مقدس ناموں کے ساتھ رکھیں تو یہ بھی پیش نظر رہے کہ ان مقدس ہستیوں کی تعلیمات کے مطابق کاروبار بھی خوش اخلاقی اور دیانتداری سے کریں۔ ورنہ لوگ دکان کا نام لے کر کہتے ہیں کہ فلاں دکان والا چور اور بددیانت ہے۔ اسی طرح اسٹیشنری پر لکھے مقدس ناموں کو بے حرمتی سے محفوظ رکھیں۔ بیکریوں،برگر، شوارمے کی دکانوں کے نام بھی مقدس ناموں پر رکھے ہوتے ہیں اور لفافوں و ڈبوں پر بھی پرنٹ کروائے ہوتے ہیں جو کوڑے میں چلے جاتے ہیں۔ کپڑا بنانے والی ایک کمپنی کا نام ایک بہت مقدس ہستی کے نام پرر کھاگیاتھا اور کپڑے کے کنارے پر وہ نام لکھا ہوتا تھا۔ خود سوچیںوہ کپڑا پہنتے اور دھوتے ہوئے اس نام کی کتنی بے حرمتی ہوتی ہوگی۔ کچھ عرصہ قبل اس کمپنی کو اس حوالے سے خط لکھا تھا۔ پتہ نہیں اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ لیکن اس لیبل والا کپڑادوبارہ نظر سے نہیں گزرا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سبز رنگ کا استعمال ایسی جگہوں اور چیزوں پر بھی ہونے لگا ہے جہاں یہ مناسب نہیں لگتا۔ حال ہی میں لاہور کی شاہراہوں پر بائیں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سبز رنگ کیا گیا ہے۔ اس حصے سے گزرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی(LWMC)کی طرف سے رکھے گئے کئی کوڑے دان سبز رنگ کے ہیں۔اسی طرح پلاسٹک کے پائپ جو غسلخانوں میں استعمال ہوتے ہیں اب سبز رنگ کے لگے ہیں۔
ضروری نہیں یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہو؟۔ پاکستانی جذباتی قوم ہیں۔ لٹھ لے کر مرنے مارنے کو نکل پڑتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی ایسی صورت حال دکھائی دیتی ہے تو متعلقہ ادارے کو آگاہ کریں۔کمپنیاں اپنی مصنوعات بیچنے کے لیے بناتی ہیں،جب آپ ایسی اشیاء نہیں خریدیں گے اور دکاندار کو وجہ بھی بتائیں گے تو دکاندار ایسی چیزیں رکھنا اور کمپنیاںبنانا بند کر دیں گی۔ اس طرح یہ مسئلہ حل ہو جائے گا،اور سبز گنبد سے نسبت کا تقاضا بھی پورا ہو جائے گا۔ میری طرف سے تمام مسلمانوں کوپیشگی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبارک ہو۔
سبز گنبد سے نسبت اور ہم
Oct 14, 2021