نئے جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیڈا نے منصب وزراتِ عظمی سنبھالنے کے محض دس ایام کے بعد ملکی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کو تحلیل کر دیا ہے۔ وہ اس وقت حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ وزرات عظمی کا منصب سنبھالنے سے قبل وہ پچھلی حکومتوں میں وزیر خارجہ تھے۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ نئے وزیر اعظم کو کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے اور اپنی پالیسیوں میں تسلسل کے لیے انہوں نے عوام سے رجوع کیا ہے۔جاپان کو کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد خاص طور پر اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اور نئے وزیر اعظم کا سب سے بڑا چیلنج بھی ملکی معیشت کے پہیے کو مناسب رفتار فراہم کرنی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق نئے وزیر اعظم فومیو کیشیڈا اصل میں گزشتہ نو برسوں میں دو وزرائے اعظموں شینزو آبے اور یوشی ہیڈے سوگا کی پالیسیوں کے حوالے سے اپنے اوپر لگی چھاپ سے بھی باہر آنے کی کوشش میں ہیں۔ کیشیڈا نے اپنی پالیسیوں کے لیے عوام سے حمایت طلب کرنے کی خاطر نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔فومیو کیشیڈا نے منصب سنبھالنے کے بعد اپنی اولین تقریر میں واضح کیا تھا کہ وہ کورونا بحران سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں کو مزید تیز کریں گے۔جاپانی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کی نشستوں کی تعداد چار سو پینسٹھ ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی قرارداد اسپیکر ٹاڈاموری اوشیما نے پڑھ کر اراکین کو سنائی اور اس کے جواب میں تمام اراکین نے اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو کر تین مرتبہ' بان زائی' کہا اور اس کے ساتھ پارلیمنٹ تحلیل ہو گئی۔ اور تمام اراکین پارلیمنٹ سے باہر چلے گئے۔ بان زائی کا مطلب ہے کہ وہ اسپیکر کی پڑھی ہوئی قرارداد کی تائید کرتے ہیں۔ انتخابی مہم اگلے منگل سے شروع کی جائے گی۔جاپان میں سن 2017 میں آخری مرتبہ الیکشن ہوئے تھے اور اس میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے مقبول رہنما شینزو آبے کو عوام کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہوئی تھی۔ آبے اور ان کے اتحادیوں کو تین سو دس نشستیں ملی تھیں۔ اسی الیکشن کے بعد تشکیل پانے والے ایوانِ زیریں سے پہلے شینزو آبے اور پھر یوشیڈے سوگا نے منصب وزارت عظمی کے لیے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ ان کے بعد اسی منصب پر فومیو کیشیڈا براجمان ہوئے۔ شینزو آبے کے دور میں قدامت پسند سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی شناخت میں قدامت پسندی مزید ابھری تھی۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق عوام کی بڑی تعداد اکتیس اکتوبر کو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دے کر فومیو کیشیڈا کو ہی وزیر اعظم دیکھنا پسند کریں گی اور دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتوں کو غیر مقبولیت کا بھی سامنا ہے.