ہر شہر میں اپنے اپنے انداز اور طریقہ کار کی منفرد دکانیں کھلی ہوئی ہیں جہاں فروخت کے لیے کوئی خاص سامان نہیں بس کاغذ اور قلم ہی کافی ہیں۔ قلم فروشی عروج پر ہے اور گاہک اپنی جیب کے مطابق جس طرح اور جس کیخلاف چاہے سرکار کے قلم کو استعمال کر سکتا ہے۔ جی ہاں اسی قلم کو کہ جس کی اللہ تعالیٰ نے دنیا کی افضل ترین کتاب میں قسم کھا رکھی ہے اور پھر اس قلم کے ذریعے لکھے ہوئے کی بھی قسم دی ہے۔ آج وہی قلم مظلوم کو ظالم، بے گناہ کو گناہ کار، جائیداد اور زمین کے حقیقی مالک کو جعلساز اور جعلساز کو حقیقی مالک بنانے کیلئے اپنی سیاہی سے ظلم کے انمٹ نقوش چھوڑ رہا ہے۔ ایک سفید کاغذ پر ٹائپ شدہ چند سطور اور محض ایک دستخط سے دنوں میں ہی دکاندار بدل جاتے ہیں اور اگلے روز اسی دکان پر نیا عارضی مالک اسی قلم اور کاغذ کے بل پر گاہک اکاموڈیٹ کر رہا ہوتا ہے۔ قلم چلتا ہے اور زندگی کی تین چار دہائیاں پرامن شہری کے طور پر بسر کرنے والے بارے اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تو خطرناک اور سماج دشمن شخص ہے اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبزی کٹنے میں دیر لگے تو لگے ایف آئی آر کٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ جو دے کر آتا ہے وہ پھر تیزی سے ریکوری کرکے دیے ہوئے سے زیادہ ہی لیکر جاتا ہے۔ یہی دستور سالہا سال جنوبی پنجاب میں نافذالعمل ہے۔
’نوائے وقت‘ ملتان کے دفتر میں میرے سامنے بیٹھا لودھراں کے موضع احمد پور جتیال کا رہائشی مستری محمد ساجد زاروقطار رو رہا ہے اور لودھراں کے چند معززین کہ جن کی سچائی اور حق پرستی مسلمہ ہے، اسے لے کر ہمارے دفتر آئے ہیں۔ علاقے کا ایک بااثر شخص جو موجودہ وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن خان کانجو کا دست راست ہونے کا دعویدار اور سابق بلدیاتی عہدیدار بھی ہے، دو ماہ قبل ساجد اور اسکے بھائی اصغر کو اپنے ڈیرے پر طلب کرتا ہے اور ان دونوں بھائیوں کی سڑک کنارے واقع آبائی زمین میں سے 12 کنال چند لاکھ کے عوض خریدنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ دونوں بھائی زمین فروخت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ مذکورہ زمین ہی میں انکے گھر ہیں اور جانوروں کا باڑا بھی۔ بوڑھی والدہ اور معذور خالہ بھی وہیں رہتی ہیں۔ اس زمین کی اصل قیمت 4 کروڑ کے قریب ہے مگر سابق ناظم ان بھائیوں کو اصل قیمت کا 20 فیصد دینے کی پیشکش بھی نہیں کرتا۔
اس خطے میں جسے جنوبی پنجاب کہتے ہیں، کسی بے اثر کا کسی بااثر کو انکار گناہِ کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے کہ جس کی کم سے کم سزا جیل اور زیادہ سے زیادہ سزا مقدمات میں الجھا کر پولیس مقابلہ ہوتی ہے۔ یہ قاعدہ غیر علانیہ طور سالہا سال سے یہاں نافذ ہے۔ دونوں بھائی انکار کرتے ہیں تو ان پر انھی کے رشتے داروں کے ذریعے زمین تنگ کر دی جاتی ہے، گھر گرا دیے جاتے ہیں، گائے، اسکی بچھڑی اور تین بکریاں کھول کر غائب کر دی جاتی ہیں، گھریلو سامان کو نذرِآتش کر دیا جاتا ہے، 15پر کال کی جاتی ہے مگر اس علاقے میں تعینات ایس ایچ او جو قبضہ گیری کے حوالے سے خاصی ’شہرت‘ کے حامل ہیں اور قبضوں کے معاملے میں کافی ’نیک نامی‘ کما چکے ہیں، حسب معمول ظالم کے ساتھ ہیں۔ پولیس موقع پر تو نہیں آتی اور جن بھائیوں کی زمین اور سارے سامان پر قبضہ ہوا انھی کے خلاف چند دن کے فرق سے دو ایف آئی آرز درج کر دیتی ہے جس کا مقدمہ نمبر 810/22 اور 788/22 ہے۔
متاثرہ بھائی تھانے جاتے ہیں تو ایک بھائی دوسرے سے کہتا ہے تم باہر رکو میں پتا کر کے آتا ہوں اور اب پتا کرنے تھانے میں داخل ہونے والا آٹھ روز سے لاپتا ہے کہ اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، اور دوسرا چھپتا چھپاتا ’نوائے وقت‘ ملتان کے دفتر موجود۔ جنھوں نے گھر کے سامان کو آگ لگائی وہ آزاد ہیں اور جسکے سامان کو آگ لگی وہ پولیس کا ’مہمان‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ ’پولیس کا ہے فرض مدد آپکی، کریں دل سے انکی مدد آپ بھی‘ اب جبکہ اصغر کے گھر کا سامان جل گیا تو پولیس کا فرض مدد کرنا تو بنتا ہی تھا، لہٰذا اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اصغر کو تھانے میں ’رہائش‘ دے دی گئی۔ رہا معاملہ ’کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی‘ کا تو جو جتنا گڑ ڈالے گا اتنا ہی میٹھا ہو گا، پھر وافر گڑ تو طاقتور کے پاس ہی ہوتا ہے۔ جس کا گھر ہی نہیں رہا اس سے گڑ کیسے ملے گا، لہٰذا پولیس کو گڑ کے حصول کے لیے مخالف پارٹی کی خدمات لینا ہی پڑتی ہیں۔توجہ طلب امر یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کا سابقہ کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں حتیٰ کہ انکے خلاف تو کبھی کوئی درخواست بھی تھانے کے دروازے تک نہیں پہنچی۔ قبضہ شدہ زمین کے اردگرد قبضہ کرنیوالوں کے پہرے کی وجہ سے معذور مقصود مائی اور خورشید مائی دو دن بھوکی ایک بدبودار کمرے میں مقید رہیں۔ وہ تو بھلا ہو کسی غلام اسحاق کا جو 48 گھنٹے بعد رات کو ان دونوں کو روٹی اور راشن دے آیا۔ یہ بات بہت سے لوگوں کے علم میں ہے کہ اس خطے میں عدالتی حکم امتناعی بھی بہت عقلمند ہے بااثر کے سامنے پر نہیں مارتا اور کمزور کیلئے مسلسل تازیانہ ثابت ہوتا ہے۔ آئی جی پنجاب کے آفس میں ایک ہیلپ لائن بھی قائم ہے جس کا نمبر 1787 ہے۔ صوبے بھر سے اس پر شکایت درج کرائی جاتی ہیں۔ ساجد نے بھی اس نمبر پر دادرسی کی اپیل کر رکھی ہے مگر تادمِ تحریر اس کی باری نہیں آئی۔لودھراں کے موضع کمال پور چشتیاں کے بااثر زمیندار بارے اپنے دوست عطااللہ اعوان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ مذکورہ سابق بلدیاتی عہدیدار ان کے قریبی دوست ہیں اور وہ بات کر کے بتاتے ہیں مگر یقینی طور پر عطااللہ اعوان بھول گئے ہوں گے ورنہ وہ مظلوم کیلئے کسی زمانے میں تو بھرپور آواز بلند کیا کرتے تھے۔ میں نے دو اور دوستوں سے معلومات لیں تو ان کا موقف یہ تھا کہ ہمارے علاقے میں اس قسم کے قبضے تو معمول کی بات ہیں، ہم تو عادی ہیں، آپکے نزدیک کسی کی جائیداد ہتھیانا جرم ہو گا مگر زمینداروں اور سیاسی افراد کیلئے معمول کی کارروائی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کسی کی جائیداد پر قبضے کے حوالے سے حکم خداوندی تو بہت واضح ہے تو چودھری اشرف ہنستے ہوئے کہنے لگا، آپ بھی بادشاہ بندے ہیں، جہاں قبضے کی اراضی پر بہت سی مساجد تعمیر ہو چکی ہوں، وہاں کس کو حکم خداوندی یاد ہو گا۔ ان سطور کے ذریعے میں نے یہ معاملہ آئی جی پنجاب سمیت تمام متعلقین کے نوٹس میں دے کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ جس قلم کی اور اسکے لکھے کی اللہ نے قسم کھائی ہے میں نے اس کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور گیند اب انکی کورٹ میں ڈال دی ہے جنھوں نے ایکشن لینا ہے۔