جو قومیں اپنے محسنوں کو بھو ل جاتی ہیں ، اور انہیں صرف تاریخ کا وہ حصہ بن جاتی ہیںجس کو فخر سے پڑھا تو جاسکتا ہے مگر دراصل ہمیں نادم و شرمندہ ہونا چاہئے کہ کیسے کیسے محب وطن ہیروں کو ہم بھولا بیٹھے ہیں ، چند روز قبل دس اکتوبر کو اس بات کا شدید احساس ہوا جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پہلی برسی خاموشی سے گزر گئی ، ماسوائے راولپنڈی میں ایک چھوٹا فورم جو بڑے کام کرتا ہے اور وطن سے محبت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا میری مراد پاکستان حکومت کے ایک سابق افسر رانا عبدالباقی جنہوں نے ’’جناح اقبال فورم بنایا ہوا ہے انہوںنے ڈاکٹر قدیر کو یاد رکھا اور برسی کے دن انکی قبر پر پھول چڑھا کر فاتحہ خوانی کی ۔اسکے علاوہ نہ ہی اخبارات ، نہ ہی پاکستان کے وہ سینکڑوںچینل جو شام ہوتے ہی ، اپنی روٹی پانی کیلئے اپنی من پسند آراء سے لوگوںکو گمراہ کررہے ہوتے ہیںوہاں بھی اس برسی کا ذکر مختصر خبروں میں بھی نہ تھا، وہاں ٹک ٹاکر رحیم شاہ کی خبریں اہم تھیں، پاکستان بھر میں نہ ہی اقتدار کی کرسی کیلئے دست و گریبان کسی سیاست دان کی جانب سے ڈاکٹر قدیر کیلئے کوئی تعزیتی الفاظ تھے ۔ سب سے زیادہ افسوس مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خاموشی کا تھا جو ایک عرصہ سے ڈاکٹر عبدالقدیر کی کاوشوں ، انہیں پاکستان لانے کا ، ایٹمی دھماکہ سہراء اپنے سر لینے کا چورن بیچ کر عوام کی محبتیں سمیٹتے رہے ہیں، سیاسی بساط پر تیسری جماعت تحریک انصاف کا ذکر تو چھوڑ دیں کہ وہاں تو اپنی نالائقیوں کی بناء پر حکومت چھن جانے کا سو گ ہے۔ ان سے توقع بھی کرنا بے کارہے۔ ڈاکٹر قدیر خان تو روز قیامت مسلمانوں ، اور خاص طور پاکستانیوں سے پوچھیں گے کہ میں نے پاکستان ، اور مسلم امہ کیلئے کیا خدمات انجام دیں اور تم نے مسلم مخالف دنیا کے کہنے پر ایٹمی راز کو فروخت کرنے کا الزام لگا کر ، پانچ سال قید میں رکھا اور تادم انتقال انکی نقل و حرکت پر پابندی رہی ۔ نظر بندی کے دوران ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر سے جب سوال کیا گیا تھا کہ کیا انہیں اپنی زندگی میں کسی کام پر افسوس ہے تو ڈاکٹر قدیر کا جواب پاکستان کے دس کروڑ عوام ، اور اربوں کروڑوں اسے ملک سے لوٹنے والوں کی منہ پر طمانچہ تھا ، انہوںنے جواب میں فرمایا تھا ’’ مجھے اس بات افسوس ہے کہ مجھے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے پر افسوس ہے جس نے مجھے اسکے صلے میں پابند سلاسل کردیا انہوں نے کہ تھا مجھے پاکستان کے عوام سے گلاء نہیں وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں مجھے گلہ ہے ان چور اور لیٹرے سیاست دانوں سے جو اپنے محسنوںکے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں جو انہوںنے میرے ساتھ کیا ، مجھے پانچ سال قید رکھا ، عدالت سے پانچ سال بعد رہائی کا حکم صادر ہوا ، مگر پھر بھی مجھ سفرپر باہر نکلنے پر پابندیاں ہیں، پانچ سال میرے بچے مجھ سے گھر پر نہ مل سکے ، مجھ پر الزام لگے کہ میں نے اربوں ڈالرز کے عوض ایٹمی راز دنیا کو فروخت کئے، مگر کسی کو ایک ڈالر بھی نہ مل سکا ، مجھے دوران پابندی پہلے چا ر ہزار روپیہ جسے بعد میں 19000 روپیہ ماہانہ کردیا گیا گزر بسر کیلئے دیئے گئے ، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے کے بعد حکومتی مسند پر بیٹھے ،ملک کے ایٹمی طاقت ہونے پر بغلیں بجاتے رہے اور میرا یہ حشر کردیا تو اس پر افسوس نہ کروں تو کیاکروں؟ڈاکٹر عبدالقدیر کو سابق وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے اپنا مشیر رکھا ، مگر جب سابق پرویز مشرف نے دنیا کے کہنے پرڈاکٹر عبدالقدیر پر الزامات لگائے تو ڈاکٹر قدیر کو برطرف کردیا گیا ، ظفراللہ جمالی ایک نہائت ہی محب وطن سیاست تھے انہوں نے اپنے باس پرویز مشرف کی اس سلسلے میں مخالفت کی تو پرویز مشرف نے انہیںبھی فارغ کردیا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز فروخت کرنے کے الزامات تسلیم کروا کر معافی منگوائی گئی ڈاکٹر قدیر اس کیلئے راضی نہ تھے ، میر ظفراللہ جمالی اورچوہدری شجاعت کی خدمات لی گئیںکہ اگر انہوں نے میڈیا پر آکر بیان نہ دیا تو انہیں امریکہ مانگ رہا ہے انہیں امریکہ کو دینا پڑیگا ، دونوں افراد کے کہنے پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے پرویز مشرف حکومت کے لکھے ہوئے معافی نامہ کو پڑھا ۔ ڈاکٹر مجید نظامی جو آج جنت میں محب وطنی اور ایمانداری کے عوض جنت میں عیش سے ہونگے ، انکی ادارہ نوائے وقت کی مطبوعات کے ذریعے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مشکل وقت آنے پر کھل کر ان کا ساتھ دیا اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھی کی۔ ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے اس سلسلے میں کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تقریباً دو برس تک مسلسل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کے خلاف بلا معاوضہ اشتہار شائع کیا جسکی پاداش میں نوائے وقت کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود مجید نظامی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیساتھ کھڑے رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی کے اہم واقعات پر جب بھی بیان کیے جائیں گے نوائے وقت اور محترم مجید نظامی صاحب کا ذکر خیر شامل ہوگا ،
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لا محدود خوبیوں سے سرفراز کیا۔ اُنھوںنے بحیثیت انجینئر میٹلر جسٹ اور سائنس دان 200 سے زائد تحقیقی مقالے تحریر کیے۔ جو عالمی سطح کے ریسرچ جرنلز میں شائع ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر کی یونی ورسٹیوں میں اُنکے لیکچروںکی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ اُنکی زیرِ سرپرستی 14 /اپریل 1998ء غوری IIبلاسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ ہوا۔ بکتر شکن انٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اُن کی زیرِ نگرانی تیار ہوئے۔ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کے چیئرمین کی حیثیت سے اُنھوںنے 14 /اکتوبر 1998ء تا 31 مارچ 2000ء تک خدمات انجام دیں۔ اُنہوں نے انسانی ہمدردی کے تحت بہت سے فلاحی اداروں میں حصہ لیا، بیماری کے دوران قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محبت بھرے پیغامات بھیجتی رہی۔ وہ قوم کے دلوں میں بستے تھے اور بستے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مولانا احمد علی لاہوری روڈ اور مینارِ پاکستان کے قرب میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کے نام سے 9 منزلہ، 300 بستروں کا ہسپتال تعمیر کروا یا۔ مورخ کہتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر نے جتنی مقالے لکھے ، ایوارڈ حاصل کئے اس کاوزن ڈاکٹر عبدالقدیر کے اپنے وزن سے زیادہ ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر پوری قوم آپ سے شرمندہ ہے ۔