پنجاب کی تاریخ میں جب سے لاہور (لہور) کو پایہ تخت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اس شہر نگاراں کی قسمت میں معرکے جنگ و جدال اور ترقی و تعمیر ساتھ ساتھ رہے۔ اگر اسے عروس البلاد کہا گیا تو شہر مقتل بھی بنایا گیا۔ ہندو، مسلم ، سکھ، انگریز کے ادوار میں ترقی و تخریب کا یہ عمل کچھ اس طرح جاری رہا کہ یہ بڑی بڑی جنگوں کا مرکز و مقام بھی رہا تو پنجاب کے قسمت کے فیصلے بھی اس کے ایوان میں ہوتے رہے۔ اٹک سے لے کر جہلم تک چندی گڑھ سے لے کر ملتان تک پھیلا یہ وسیع و عریض صوبہ ہندوستان کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغل دور میں دہلی کے حکمران بھی اپنا کچھ نہ کچھ وقت لاہور میں بسر کرنے پر مجبور تھے۔ لاہور کا شاہی قلعہ، مقبرہ جہانگیر و نور جہاں، شالامار، بارہ دری ، شاہی مسجد، وزیر خان مسجد، اس بات کی گواہ ہے کہ یہ بادشاہوں کا دلپسند شہر رہا ہے۔ محمود غزنوی ، شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی کے نقش قدم بھی یہاں ثبت ہوئے۔ شری رام کے بیٹے لِو کے بسائے اس شہر کو لہور بھی کہتے ہیں۔ تب سے آج تک کئی بار یہ بنا بکھرا ، اجڑا اور بسا۔ مگر اس کی سیاسی حیثیت کبھی کم نہ ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد تو اسے پاکستان کا دل بھی کہا جانے لگا۔ یہی لاہور پنجاب کا دارالحکومت بھی ہے۔ جہاں بیٹھ کر حکمران پنجاب پر حکومت کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسے پاکستان سیاست کا بیرو میٹر بھی کہتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہاں عمران خان نے تخت لہور پر قبضہ جمانے میں کامیابی حاصل کی تو یہاں من پسند کھلونے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا وہ کھیل شروع ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ تاریخ اور ریکارڈ گواہ ہے کہ پنجاب پر جو بھی حکمران رہا وہ مضبوط اور طاقتور ہوتا تھا۔ مگر چونکہ عمران خان کی پی ٹی آئی نے ق لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور اپنے طاقتور مہرے چھوڑ کر ایک پیادہ کو حکمران بنا دیا۔ یوں تخت لاہور پہلی مرتبہ لاوارث سا بن گیا جس کی پہچان ہی اس سے چھین لی گئی۔ اس چار سالہ دور میں حقیقت میں بقول امرتا پریتم
’’اٹھ درد منداں دے دردیا ویکھ اپنا لہور‘‘
والی کیفیت سامنے رہی۔ بہرحال یہ ایک سیاسی جماعت کا سیاسی فیصلہ تھا۔ پھر اتحادیوں کا رانجھا راضی کرنے کے لیے عمران خان جسے ا پنا نفس ناطق رکھتے تھے اس کی قربانی پر مجبور ہوئے اور آج تخت لہور پر چودھری پرویز الٰہی براجمان ہیں اور اس پر بیٹھ کر حکومت چلا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تخت مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کے جبڑوں سے چھینا۔ ورنہ 7 رکنی جماعت کا وزیر اعلیٰ کون بنتا ہے۔ یہ ق لیگ نے پی ٹی آئی والوں سے اپنی حمایت کا خراج طلب کیا جو طوعاً و کراھاً عمران خان نے ادا کیا اور عثمان بزدار جو اپنی خوشی سے آئے تھے نہ اپنی خوشی سے گئے۔ خاموشی سے تحت سے دستبردا ہوئے اور گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ اب چند ماہ پہلے والی سیاسی سورش اور یورش کے اثرات ایک مرتبہ پھر تخت لاہور کے حصول کی جنگ میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا۔ یہاں کے تخت سے دستبرداری اسے ہضم نہیں ہو رہی۔ اس کے چھینے جانے کا غم بھلایا نہیں جا رہا۔ سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ ایک بار پھر عروج پر ہے۔ اس بار بھی ق لیگ کے کندھے تلاش ہو رہے ہیں۔ ق لیگ اس وقت چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت کے درمیان تقسیم ہے۔ صوبائی اسمبلی میں پرویز الٰہی کے پاس 8 ارکان ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں دو یا تین ارکان چودھری شجاعت کے ساتھ ہیں جو مسلم لیگ (ن) کی حمایت کر رہے ہیں۔
اب پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے تو اس نے اپنی حکومت چھیننے کا ذمہ دار اداروں کو ٹھہراتے ہوئے انہیں بری طرح لتاڑنا شروع کر دیا۔ حساس اداروں، عدلیہ ، الیکشن کمشن اور نجانے کون کون ان کی الزام تراشیوں کی زد میں ہیں۔ جس کی وجہ سے ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اپنے کئی ارکان تحفظات رکھتے ہیں اور وہ عمران خان کے سازشی بیانیے اور قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی سے نالاں ہیں۔خود پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اداروں کیخلاف عمران کی جنگ سے کھلے کی برأت کا اظہار کیا ہے۔ وہ ابھی تک گومگوں کی کیفت میں ہیں کہ عمران کی حمایت میں بولیں یا انکے بیانئے کیخلاف آواز اٹھائیں۔ کیونکہ اہل پنجاب نے کبھی اداروں کیخلاف باغیانہ لب و لہجہ اختیار نہیں کیا۔ اس لئے عمران پنجاب اسمبلی میں جن کا تعلق پی ٹی آئی اور مسلم لیگ سے ہے‘ وہ پریشان ہیں۔ ان حالات میں پنجاب میں وزیر داخلہ اور وزیر معدنیات کے استعفے نے ایک مرتبہ پھر تخت لہور کے اردگرد سیاہ چادر تان لی ہے اور اگر مسلم لیگ (ن) نے درست ہے۔ بروقت کھیلے تو کسی بھی وقت پنجاب سے ق لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومت زمین بوس ہو سکتی ہے۔ اس سیاسی سورش اور یورش کی وجہ سے تخت لہور لرزاں ہے۔ دیکھتے ہیں پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ بازی مسلم لیگ جیتی ہے یا پی ٹی آئی اس کا انحصار فوری الیکشن اور فیصلوں پر ہو گا۔ دونوں جانتے ہیں کہ جو پنجاب پر حکمران ہے وہ پورے پاکستان پر حکومت کرتا ہے۔
٭٭٭٭