اسلام آباد(خبرنگار)وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے پہلی نیشنل پلاسٹک ایکشن پارٹنرشپ اسٹیئرنگ کمیٹی اور نیشنل اسٹیک ہولڈرز کنسلٹیشن ورکشاپ برائے پلاسٹک فری برائے جنوبی ایشیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک اور بیرون ملک کے اسٹیک ہولڈرز سے جدت اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی دریائوں، خاص طور پر دریائے سندھ سے بہنے والی پلاسٹک آلودگی کا باعث بن رہی ہے۔وفاقی وزیر شیری رحمن نے معاشرے میں پلاسٹک کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ پلاسٹک کی آلودگی جاری اور مستقبل میں ماحولیاتی ٹہرا کی راہ میں سب سے اہم رکاوٹ ہے۔ وزیر نے اس بات پر زور دیا اگرچہ ہم پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا سکتے ہیں لیکن صرف جرمانے ہی اس کا حل نہیں ہیں۔ اگر ہم نے بنیادی مسائل پر توجہ نہ دی تو معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو گے۔ مستقبل قریب میں سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔ ملیر ندی کو صاف کرنے کے لیے کوکا کولا کے ساتھ پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ہے جس کا مقصد ماحول اور آبی ذخائر کو آلودگی پھیلانے والے پلاسٹک سے نجات دلائیں۔وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینٹر شیری رحمان نے کہا کہ لوگ سمندری غذا کے استعمال سے روزانہ مائیکرو پلاسٹک کھا رہے ہیں جس سے غذائیت کو متاثر ہو رہی ہے۔اس سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کافی نہیں ہوگی بلکہ ایک بہتر نظم و نسق کا ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم آخری صارف کو پلاسٹک کے استعمال سے باز نہیں کرتے اور عوام کو مسئلے کی سنگینی کے بارے میں مسلسل آگاہی نہیں دیتے، کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کے اشترک سے پلاسٹک کا مسئلہ ختم کر دیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو اس صدی کے سب سے بڑے موسمیاتی واقعے کا سامنا ہے کیونکہ ایک ہی آفت سے متاثر ہونے والے 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں
شیری رحمان