کراچی ( کامرس رپورٹر) آٹو انڈسٹری کو درپیش چیلنجز اور کمپنی کے لیے سخت حالات کے باوجود انڈس موٹر کمپنی نے ورکرز کو نوکریوں سے نکلانے کا امکان مسترد کردیا ہے دوسری جانب سی کے ڈی کی درآمد پر عائد پابندیوں کی وجہ سے پیداوار متاثر ہورہی ہے اور سیلاب کے اثرات کاروں کی فروخت میں 50فیصد تک کمی کا سبب بن رہے ہیں۔کاروں کی فروخت میں کمی نہ صرف انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود حکومت کو بھی سال بھر میں 1.5ارب ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ کاروں کی اوسط قیمت میں ٹیکسز اور محصولات کا شیئر 39فیصد کے لگ بھگ ہے۔انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی اصغر جمالی کے مطابق ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ متعدد بین الاقوامی اور ملکی عوامل کی وجہ سے متاثرہ معیشت کی حالت درست کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور وفاقی حکومت معیشت کی بحالی کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔ ہم حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں تاہم امپورٹ بل میں آٹو سیکٹر کا حصہ صرف 3فیصد ہے، سی کے ڈی کی امپورٹ پر پابندی سے جاری کھاتے کے خسارے کو کم کرنے میں نمایاں مدد نہیں مل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس امپورٹ پر عائد کی جانے والی پابندیوں سے مقامی وینڈر انڈسٹری متاثر ہورہی ہے آٹو سیکٹر سے براہ راست اور بالواسطہ 30لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جاری کھاتہ کے خسارے میں پیٹرولیم مصنوعات اور خوراک کا درآمدی بل اہم کردار ادا کررہا ہے جس کی مالیت 27ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ گزشتہ سال تاریخی بلند فروخت کے باوجود آٹو سیکٹر کا امپورٹ بل میں حصہ صرف 2.25ارب ڈالر رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہر طرح کی درآمدات ایک ہی نوعیت کی نہیں ہوتیں اس لیے اتھارٹیز کو امپورٹ کی جانے والی اشیائ کی درجہ بندی کرنا ہوگی اور لگڑری آئٹمز کی امپورٹ پر پابندیاں لگاتے ہوئے مقامی پیداوار کے لیے ضروری درآمدات کی اجازت دینا ہوگی۔آٹو انڈسٹری کو دیگر تمام صنعتوں کی ماں کا درجہ دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک موقع بڑھنے پر متعلقہ صنعتوں میں 10 نئے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ امپورٹ پر عائد پابندیوں کی وجہ سے پرزہ جات بنانے والے اور مقامی سطح پر پرزہ جات کی تیاری (لوکلائزیشن) غیرمعمولی طورپر متاثر ہورہی ہے خود انڈس موٹر کمپنی یومیہ 27کروڑ روپے کے پرزہ جات مقامی مینوفیکچررز سے خریدتی ہے۔ موجودہ حالات میں بہت سے بڑے وینڈرز ملازمین کو برطرف کرنے پر مجبور ہیں۔علی اصغر جمالی نے کہا کہ امپورٹ اور ایل سی پر پابندیوں سے تقریباً تمام گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں متاثر ہورہی ہیں اور اضافی عرصہ کے لیے پلانٹ بند کرنا پڑرہے ہیں جس سے ان کی پیداواریت اور فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے پلانٹس بند ہونے کا نتیجہ بے روزگاری کی شکل میں نکل رہا ہے اور ورکرز کی فلاح و بہبود سمیت دیگر بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ فی الوقت انڈس موٹر کمپنی 40فیصد پیداواریت پر کام کررہی ہے جبکہ زیادہ تر دیگر کاریں بنانے والی کمپنیوں کی پیداوار رکی ہوئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ انڈس موٹر کمپنی نے حال ہی میں مقامی سطح پر ہائی برڈ گاڑیوں کی پیداوار اور 2023 میں کرولا کراس گاڑیاں متعارف کرانے کے لیے 100ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ مقامی سطح پر ہائی برڈ گاڑیوں کی پیداوار سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے امکانات روشن ہوں گے اور جی ڈی پی اور روزگار کے مواقع بڑھنے کے ساتھ ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
علی اصغر جمالی