حافظ محمد عمران
کرکٹ ورلڈ کپ 2023ءکے مقابلے بھارت میں جاری ہیں اور آج اس ورلڈ کپ میں فائنل سے پہلے ایک بڑا میچ کھیلا جا رہا ہے۔ کرکٹ کے روایتی حریف پاکستان اور بھارت احمدآباد میں آمنے سامنے آئیں گے۔ سوا لاکھ شائقین سے زیادہ گنجائش والے اس سٹیڈیم میں پاکستان ٹیم کی حوصلہ افزائی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ویسے تو پاکستان کے شائقین کرکٹ کو بھارت سفر کی اجازت نہیں مل سکی اور پاکستانی صحافی بھی سفری مشکلات کی وجہ سے بھارت نہیں پہنچ سکے۔ ان حالات میں پاکستانی کھلاڑیوں کو اپنے لوگوں کی عدم موجودگی میں ہی بھارتی ٹیم کا مقابلہ کرنا ہے۔ گو کہ پاکستان ٹیم کو حیدر آباد میں خوش آمدید کہا گیا، بڑا اچھا استقبال ہوا اور سٹیڈیم میں بھی پاکستان کے حق میں اور پاکستان ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے نعرے لگتے رہے۔ احمد آباد آمد کے موقع پر بھی شائقینِ کرکٹ نے پاکستان ٹیم سے بھرپور محبت کا اظہار کیا لیکن آج کھیلے جانے والے میچ میں شائقین کی طرف سے حوصلہ افزائی کے امکانات ذرا کم ہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ہماری ٹیم کو شائقین کے نہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ کھلاڑی پروفیشنل ہیں اور اور دنیا بھر میں مختلف حالات میں کرکٹ کھیلتے آ رہے ہیں۔ اس لیے وہ ہر قسم کے حالات میں بہتر کھیل پیش کرنے کی صلاحیت اور تجربہ رکھتے ہیں لیکن اگر گراﺅنڈ میں کھیلنے والی دونوں ٹیموں کو ایک جیسی حوصلہ افزائی یا حمایت ملے تو اس سے کھلاڑیوں کے جوش و جذبے میں اضافہ ہوتا ہے اور ٹیلی ویژن پر میچ دیکھنے والوں کی دلچسپی بھی بڑھتی ہے۔ بہرحال تمام باتیں اپنی جگہ ہیں ، انتظامات کے حوالے سے بھارتی کرکٹ بورڈ کو تنقید کا سامنا ہے لیکن سب خامیوں کے باوجود آج صرف اور صرف بات پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ کی ہو رہی ہے۔ بھارت ایشیاءکپ جیتنے کے بعد آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میں کامیابی اور ورلڈ کپ کے دو میچز آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف پراعتماد انداز میں جیت چکا ہے۔ بھارت نے آسٹریلیا کو کم رنز پر آﺅٹ کیا اور پھر ہدف کے تعاقب میں جلد ابتدائی وکٹیں گنوانے کے بعد ویرات کوہلی کے ایل راہول کی شراکت داری سے بآسانی میچ جیتا جبکہ افغانستان کے خلاف بھی بھارتی بلے بازوں نے جارحانہ انداز سے بیٹنگ کر کے اپنے عزائم کا اظہار کیا۔ ان دونوں میچز میں میزبان ٹیم کے باﺅلرز نے بھی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اُن کے سپنرز بھی وکٹیں لے رہے ہیں جبکہ فاسٹ باﺅلرز بھی آﺅٹ کر رہے ہیں۔ بیٹنگ کے شعبے میں روہت شرما ، ویرات کوہلی ، کے ایل راہول اور ایشان کشن بھی رنز کر چکے ہیں۔ پھر روہت شرما اور اُن کے ساتھی کھلاڑیوں کو ہوم گراﺅنڈ اور کراﺅڈ کا بھی فائدہ ہو گا۔
دوسری طرف پاکستان کی ٹیم باصلاحیت کھلاڑیوں پر تو مشتمل ہے ، عبداللہ شفیق نے ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ کھیلا اور سنچری سکور کی۔ محمد رضوان نے بھی50 اوورز کے ورلڈ کپ میں پہلی سنچری سکور کر لی ہے۔ دونوں بلے بازوں نے سری لنکا کے جس شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف حاصل کیا اس کامیابی سے پاکستان ٹیم کے اعتماد میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ بابر اعظم دونوں میچز میں رنز نہیں کر سکے لیکن سری لنکا کے خلاف اُن کے رنز نہ کرنے کے باوجود پاکستان نے ایک مشکل میچ میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان ٹیم کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آﺅٹ آف فارم باﺅلرز ہیں۔ شاہین آفریدی کا گیند سوئنگ نہیں ہو رہا اُن کی رفتار میں بھی تھوڑی سی کمی ضرور آئی ہے۔ شاہین کو نئے گیند سے وکٹیں نہ ملیں تو پاکستان کے دیگر باﺅلرز دباﺅ میں آتے ہیں۔اسی طرح اننگز کے درمیانی حصے میں پاکستان کے سپنرز وکٹیں لینے میں کامیاب نہیں ہو رہے، بالخصوص لیگ سپنر شاداب خان کی خراب کارکردگی نے ٹیم کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اُن کے 10 اوورز میں نہ رنز رُکتے ہیں اور نہ وکٹیں ملتی ہیں۔ صرف شاداب ہی نہیں محمد نواز کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے۔ بھارت میں اب تک کھیلے جانے والے میچز میں یہ بات واضح طور پر نظر آئی ہے کہ سپنرز اپنی ٹیموں کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن پاکستانی سپنرز کا گیند ہی ٹرن نہیں ہو رہا۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹیم مینجمنٹ اور کپتان شاداب خان کے علاوہ کسی اور کھلاڑی کی طرف دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اُسامہ میر باہر بیٹھے ہیں نہ جانے انہیں کب موقع ملے لیکن وہ اتنے باصلاحیت تو ہیں کہ پاکستان کے لیے وکٹیں لے سکیں۔ تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر خراب کھیل کا مظاہرہ کرنے والے کسی کھلاڑی کو ڈراپ کیا گیا ہے تو اُس کی جگہ کھیلنے والے نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سلمان علی آغا کی جگہ سعود شکیل کو کھیلایا، اس نے رنز کر دئیے، آﺅٹ آف فارم فخر زمان کی جگہ عبداللہ شفیق کو موقع دیا اُس نے مشکل حالات میں سنچری سکور کر دی اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ٹیم انتظامیہ اور کپتان اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے۔ پاکستان ٹیم منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے بھی دیگر ٹیموں کی نسبت کمزور نظر آتی ہے۔ فخر زمان ڈراپ تو ہو گئے ہیں لیکن پاکستان کے لیے امام الحق کی خراب فارم بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امام بھی مسلسل ناکام ہو رہے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ٹیم غلطیوں سے سبق سیکھ کر میدان میں اُترتی ہے یا پھر غلطیوں کو دہرایا جاتا ہے۔
آج صلاحیت کے ساتھ ساتھ اعصاب کی مضبوطی کا بھی مقابلہ ہے۔ جس ٹیم کے کھلاڑی دباﺅ کا بہتر مقابلہ کریں گے اور جس ٹیم کا کپتان اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھائے گا اور بروقت بہتر فیصلے کرے گا اُس ٹیم کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کے لیے آج کا میچ نہایت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ناکامی کی صورت میں پاکستان ٹیم پر بہت زیادہ دباﺅ آئے گا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایشیاءکپ میں بھارت کے خلاف اچھی کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ آج بابر اعظم اُن کے ساتھی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا بڑا امتحان ہے۔
پاکستان اور بھارت آج آمنے سامنے
Oct 14, 2023