اس سال کے اوائل میں اقوامِ متحدہ کے شعبہ صحت کے ادارے کے سربراہ ٹیڈروزایڈہانوم گیبر یاسس نے کہا کہ کووڈ -19 عالمگیر صحت کے لیے بدستور خطرہ ہےاور یہ ابھی اعلان کرنے کا وقت نہیں آیا کہ وباءختم ہو چکی ہے۔ یہ باتیں ابھی موضوعِ گفتگو ہی تھیں کہ تقریباً اپریل میں متحدہ عرب امارات نے عوامی سرکل میں وارننگ جاری کی کہ نکسیر بخار کا سبب بننے والے وائرس سے آگاہ رہیں، دو افریقی ممالک تنزانیہ اور ایکواٹودیل گنی کا غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کریں۔ ان دونوں ممالک میں ماربرگ وائرس پھیلا ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تنزانیہ میں ماربرگ وائرس قہر ڈھا رہا ہے۔ ایبولا وائرس کی نسل سے تعلق رکھنے والا یہ وائرس نیا نہیں ہے بلکہ ماضی میں 1967 میں جرمنی میں اس نے تباہی کی داستان رقم کردی تھی۔اس وقت شرح اموات 24 سے 88 فیصد تھی۔ یہ سن کر پاکستانیوں کے اوسان خطا ہو گئے کہ کہیں پھر لاک ڈاو¿ن نہ لگ جائے۔
ستمبر میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب سموگ کے سایے منڈلانے ہی لگے تھے کہ خطرناک نیپا وائرس نے اینٹری ماری اور مہنگائی کے ستائے بیچارے عوام مزید ٹینشن کا شکار ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق نیپا وائرس چمگادڑوں سے پھیلتا ہے۔یہ وائرس کورونا سے بھی مہلک ہے جو ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ کورونا کے ساتھ اگر نیپا وائرس پھیلا تو عالمی منظر نامے میں حالات کتنے دگرگوں ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2019 کے کورونا لاک ڈاو¿ن نے پوری دنیا کے سیاسی، سماجی، نفسیاتی، انتظامی اور معاشی ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ لوگ خود ساختہ تنہائی کے سبب ڈپریشن میں چلے گئے تھے۔
متحدہ عرب امارات میں جس طرح رہائشیوں کو وارننگ جاری کی جا رہی ہے۔ خدانخواستہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کووڈ-19 کے دوران ہونے والی ڈپریشن کی دہرائی ہی نہ ہو جائے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آئسولیشن کے دوران اگر سوشل میڈیا سے جڑے نہ رہتے تو شاید نفسیاتی لحاظ سے مفلوج ہو چکے ہوتے۔برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا میں مبتلا ایک تہائی افراد نفسیاتی اور اعصابی بیماری کا شکار بنے۔
علاوہ ازیں مشاہدے میں آیا کہ ایسے ممالک جو کورونا سے ذیادہ متاثر ہوئے اور جہاں نقل و حرکت پر پابندیاں سخت رہیں وہاں کے باسیوں کی ذہنی صحت پر ذیادہ دباو¿ پڑا۔ نتیجتاً ڈپریشن اور انگزائیٹی ڈس آرڈر میں اضافہ دیکھا گیا۔سماجی دوری جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، معاشرے میں لوگ گھروں، کمروں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے۔ دنیا نے سسک سسک کر ایسا وقت بھی گزارا کہ لوگ سورج کی روشنی، قدرتی نظاروں، باغوں میں پرندوں کے چہچہانے کو تقریباً بھول ہی چکے تھے کیونکہ تفریحی مقامات و پارکس مکمل طور پر بند تھے۔ پلے لینڈز، شاپنگ مالزوسینیما ہاو¿سز کی رنگینیاں مانند پڑ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ انسان اپنے چہرے کو بلاضرورت چھو نہیں سکتا تھا۔ بار بار ہاتھ دھو کر سینیٹائزر لگانا ایک عجیب کیفیت طاری کرتا تھا۔
والدین اپنے بچوں کو پیار کرنے سے ڈرتے تھے کہیں ننھے پھول مرجھا نہ جائیں۔بڑے بزرگوں کی خدمت کرنے پر انجانا خوف گھیرے رکھتا تھا۔ سودا سلف کی خریداری کے دوران مارکیٹس میں جو لوگ چھینکتے یا کھانستے عوام ان سے نہ صرف دور بھاگتے تھے بلکہ مشکوک نگاہوں سے بھی دیکھتے۔ دفاتر میں جن کو نزلہ زکام ہوتا وہ احساس کمتری سے دبکے جاتے۔ چھوٹے بچے کورونا ڈپریشن کا سب سے ذیادہ شکار بنے کہ ان سے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے مواقع چھن گئے تھے۔ کچھ بچے کورونا کے دوران گھر میں بالکل تنہا رہے کیونکہ ان کے والدین کو لازمی کارکن ہونے کی وجہ سے ملازمت پر جانا پڑتا تھا۔
گھریلو نزاعات ، جھگڑوں میں 40 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کئی مرد حضرات کووڈ لگ جانے کی فکر کی وجہ سے ملازمت پر نہیں جاتے تھے اور اس کوتاہی کی پاداش میں ان کو ملازمت سے آو¿ٹ کر دیا گیا۔ اس صدمے سے گھر کے مردوں کا مزاج جارحانہ ہوگیا تھا۔ گھر کا سرکل پہلے جیسا چلانا ان کے لیے خاصا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اس پر خواتین کی اشیائے ضروریہ کی ڈیمانڈ مردوں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھی۔
معذور افراد کے ساتھ ساتھ خواجہ سراو¿ں، بزرگ افراد کے لیے لاک ڈاو¿ن کی گھڑیاں کٹھن رہیں۔ کووڈ کے بارے میں بار بار سوچنا ، غیر ضروری طور پر محتاط رہنا ، سوشلی ڈی ایکٹو رہنے کو ترجیح دینا کووڈانگزائٹی کی میجر وجہ بنے۔
پریشان کن بات تو یہ ہے کہ نیپا وائرس کی احتیاطی تدابیر کورونا وائرس سے ذیادہ ہیں۔کورونا جیسی وبائی بیماری ہم پر مسلط ہو گئی ہے اور جانے کا نام نہیں لے رہی ایسے میں کسی اور جان لیوا بیماری کو برداشت کرنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
٭....٭....٭