چوہدراہٹ کے عوامل

Oct 14, 2023

اللہ دتہ نجمی

کیپٹن ریٹائرڈ اظہر راولپنڈی شہر کے مَعدودے چَند ناظمین کی فہرست میں شامل تھے جن کی دیانت، شرافت اور راست گوئی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ایک دن وہ میرے پاس بیٹھے تھے کہ گجرات کا ذکر چھڑ گیا۔ 
2001 میں مجھے بھی اپنے فرائضِ منصبی کی بجا آوری کے سلسلے میں پانچ ہفتوں کے لئے گجرات میں رہنا پڑا تھا۔ اِس مختصر سی مدت میں اہلِ گجرات کے انتہائی مثبت رویوں اور خوش گوار یادوں کے انمٹ نقوش کبھی ذہن سے محو نہیں ہونے پائے۔
مجھے گجرات اور گجرات کے باسیوں کے بارے میں بہت کچھ جاننے، پرکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ایسے واقعات کہ جن کو سن کر افسانوی یا ڈرامائی کہانیوں کا سا گمان گزرتا تھا مگر درحقیقت وہ واقعات ہمارے روایتی معاشرے کے رہن سہن اور نفسیاتی الجھنوں کی افسانوی یا ڈرامائی نہیں بلکہ جیتی جاگتی حقیقتیں تھیں۔
کیپٹن اظہر کی گجرات میں خاصی تعلق داری تھی۔ تعلق داری کیوں نہ ہوتی اس وقت شہرِ اقتدار کو جانے والی تمام پگڈنڈیاں اور راہیں براستہ گجرات ہی جایا کرتی تھیں۔ وہ بتانے لگے کہ ایک دن ان کا ایک بہت امیر و کبیر ولایت پلٹ دوست ان کے پاس آیا۔ وہ گجرات کے کسی چوہدری سے اپنے کسی ضروری کام کے سلسلے میں فوری طور پر ملنا چاہ رہا تھا۔ ایسے لوگوں کے پاس دولت کی فراوانی اور وقت کی کمی ہوا کرتی ہے۔ وقت بچانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ کیپٹن اظہر دوستی کا لحاظ اور بھرم رکھتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑے۔
 گجرات کے ایک دوست سے ان چوہدری صاحب کا موبائل نمبر لیا اور راستے میں چوہدری صاحب سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوششیں کی جاتی رہیں جو بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ ان کے دوست کا بھی مذکورہ چوہدری سے رابطہ نہ ہو سکا۔
رات کے تقریباً دو بجے یخ سردی میں ان کی گاڑی چوہدری صاحب کی رہائش گاہ کے گیٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ اِس طرح کے چوہدریوں کے گھر نہیں بلکہ حویلیاں ہوا کرتی ہیں۔ بڑی بڑی حویلیاں، جن کے در و دیوار چوہدریوں کی آن بان، رعب و دبدبے اور ہیبت کے پر اسرار قصے سناتے نظر آتے ہیں۔۔۔
 گاڑی سے باہر نکل کر گھنٹی بجائی مگر کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی اندر سے کوئی بندہ بشر تو کجا، آواز یا آہٹ بھی سنائی نہ دی۔گھنٹی بجانے کا عمل بار بار دہرانے پر اچانک چھت سے تین چار لوگوں نے اسلحہ لہراتے ہوئے گرجدار آواز میں ہینڈز اپ کرنے کا حکم دیا۔ تعمیل ہوتے ہی انہوں نے ہمیں اپنا مکمل تعارف کروانے اور رات کو بغیر پیشگی اطلاع دیے اچانک آمد کی وجہ پوچھی۔
کیپٹن اظہر نے اپنا اور اپنے دوست کا تعارف کراتے ہوئے وجہ آمد بھی مختصراً بتا دی۔ گجرات کے اس دوست کا حوالہ بھی دیا جس کے کہنے پر وہ چوہدری صاحب سے ملنے آئے تھے۔
 تھوڑی دیر کے بعد حویلی کے مین گیٹ میں نصب سائیڈ والا چھوٹا دروازہ کھلا، مسلح افراد نے ان کی جامہ تلاشی لی، شناختی کارڈز چیک کئے، گاڑی کی بھی مکمل تلاشی لی، اِدھر ادھر نظریں دوڑائیں اور اپنی مکمل تسلی کر لینے کے بعد انہیں انتظار کرنے کو کہا۔ چھت پر کھڑے اسلحہ بردار بدستور وہاں موجود تھے مگر اب نالیوں کا رخ ان کی طرف سے ہٹ چکا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کو اندر آنے کی دعوت دی گئی۔ ایک بہت بڑے اور سجے دھجے ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا گیا۔ 
کچھ ہی دیر میں پرتکلف چائے بھی میز پر سجا دی گئی اور اِس اثنا میں مطلوبہ چوہدری صاحب نمودار ہوئے، تپاک سے ملے اور آمد کی وجہ دریافت کی۔
کیپٹن اظہر نے بتایا کہ ان کے برطانیہ سے آئے ہوئے دوست کو آپ سے کوئی ضروری نوعیت کا کام ہے۔ چوہدری صاحب نے سوالیہ نظروں سے کیپٹن اظہر کے دوست کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا ”چوہدری صاحب! آپ میرے کام کو ماریں گولی۔۔۔ آپ کا جاہ و جلال، پروٹوکول، طرزِ زندگی اور سٹائل دیکھ کر میں از حد متاثر ہوا ہوں اور آپ کی طرز پر چوہدراہٹ کا تاج اپنے سر پر بھی سجانا چاہتا ہوں۔ بتائیں اِس سلسلے میں آپ میری کیا مدد کر سکتے ہیں“؟ بدلی ہوئی صورتحال میں حیرت زدہ کیپٹن اظہر کبھی چوہدری صاحب پر نظر ڈالتے اور کبھی اپنے رئیس دوست کو دیکھتے …۔ 
چوہدری صاحب نے چائے کا گھونٹ پیتے اور زیرِ لب مسکراتے ہوئے انتہائی متانت سے جواب دیا "میرے حساب سے تو آپ یہ کام نہیں کر سکیں گے"۔ کیپٹن اظہر کے دوست نے کہا "میرے پاس دولت اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے۔ آپ فقط اِس طرز کی چوہدراہٹ کے گر اور اسرار و رموز سمجھا دیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ میں کر گزروں گا"۔ چوہدری صاحب نے جو جواب دیا وہ کیپٹن اظہر اور اس کے دوست کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
سوچوں میں گم چوہدری صاحب ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہنے لگے :
”آپ کو اِس مقام تک پہنچنے کے لئے دس پندرہ سال انتظار کرنا پڑے گا، دشمنیاں پالنا اور دوستیاں نبھانا ہوں گی اور مخالفین کے تین چار بندوں کو پھڑکانا پڑے گا۔ اتنی ہی تعداد میں یا اِس سے بھی زیادہ آپ خود یا آپ کے گھر اور خاندان کے قریبی عزیز یا دوست بھی جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔ مقدمہ بازی سے نپٹنے، جدید اسلحہ خریدنے اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے کچھ نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجنا پڑے گا جو آپ کو باقاعدگی سے معقول رقم بھیجتے رہیں گے۔ دولت جائز ذرائع سے حاصل کرنا ہوگی اور اپنے کردار کو اجلا اور صاف ستھرا رکھنا ہوگا تاکہ دشمن کسی وقت اور کسی مقام پر بھی آپ کے ذریعہ معاش اور کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے“۔ 
کیپٹن اظہر کو یوں محسوس ہوا جیسے ا?ن کے دوست کی قوتِ گویائی اور سماعت دونوں بیک وقت سلب ہو گئی ہوں… سامنے بیٹھے چوہدری صاحب سے نہیں بلکہ ملک الموت سے مکالمہ بازی ہو رہی ہو…۔ 'کاٹو تو لہو نہیں بدن میں' … انہیں لگا جیسے چوہدری صاحب کی گفتگو سن کر ان کے دوست کے ذہن میں پیدا ہونے والے چوہدراہٹ کے جرثومے طبعی کی بجائے حادثاتی موت مر گئے ہوں… تھوڑی دیر مکمل سناٹا چھایا رہا۔ چوہدری صاحب ان کے دوست کی ذہنی کیفیت بظاہر تو جان ہی چکے تھے مگر پھر بھی اس کا ردِ عمل معلوم کرنے کے لئے اس کی طرف مسلسل سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک معقول خاموشی کے بعد چوہدراہٹ کے موضوع کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کے دوست نے چوہدری صاحب کو اپنا وہ مدعا بیان کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ رات کے وقت ا?ن سے ملاقات کرنے آئے تھے.
٭....٭....٭

مزیدخبریں