نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف‘ عمران خان اور آصف علی زرداری سمیت تمام افراد قانونی راستہ اپنائیں۔ ہر ایک کو مقدمات کے معاملہ میں قانونی سہولت ملے گی۔ کسی کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں‘ ڈیل کیسے ہو سکتی ہے۔ گزشتہ روز نمائندہ اخباری تنظیم سی پی این ای کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اور ایک انٹرویو کے دوران مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ وقت پر انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں اور وہ جنوری میں الیکشن سے متعلق مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سکیورٹی اور گورننس جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں سے جڑے معاملات پر اپنی مشق پوری کر چکا ہے۔ انکے بقول وہ سردیوں میں انتخابات سے متعلق مولانا فضل الرحمان کے بیان سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی وطن واپسی میں کسی ڈیل کے تاثر کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ نگران حکومت کسی ڈیل کا کیونکر حصہ ہوگی۔ نوازشریف عدالتی فیصلے کے تحت ملک سے باہر گئے اور انہیں وطن واپسی پر کچھ سوالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ نگران حکومت مسلم لیگ (ن) یا کسی بھی پارٹی کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ عمران سمیت کسی بھی سیاسی شخصیت کے بارے میں جو بھی کوئی فیصلہ ہوگا وہ عدالتی عمل کے نتیجہ میں ہوگا۔ وہ مغل بادشاہ کی طرح کسی کی رہائی یا قید کا حکم نہیں دے سکتے۔
نگران وزیراعظم کی جانب سے پہلے بھی متعدد مواقع پر اس امر کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ عمران خان یا کسی بھی سیاست دان کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی پر قانون کا نفاذ یقینی بنایا جائیگا اور وہ عدلیہ کے فیصلوں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرینگے تاہم اس وقت جبکہ میاں نوازشریف ملک واپسی کے عملی اقدامات کا آغاز کر چکے ہیں جو نیب کے مقدمات میں سزا یافتہ ہیں اور تقریباً پانچ سال بعد ملک واپس آرہے ہیں جبکہ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق انکی اہلیت یا نااہلیت کا معاملہ ابھی فیصلہ طلب ہے‘ اسی طرح عمران خان کیخلاف سائفر‘ توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ سمیت مختلف فوجداری مقدمات کا فیصلہ ہونا ہے اور انکی اہلیت یا نااہلیت کا دارومدار بھی عدالتی فیصلوں پر ہی ہے۔ اس لئے نگران سیٹ اپ بالخصوص نگران وزیراعظم کیلئے یہ صورتحال انتہائی احتیاط کی متقاضی ہے۔
زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے کسی قسم کی (مثبت یا منفی) رائے کا اظہار ویسے ہی عدالتی کارروائی میں مداخلت کے مترادف ہوتا ہے جبکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران سیاسی منافرت و کشیدگی کی فضا ایک دوسرے کے مخالف سیاست دانوں کے باہم دست و گریباں ہونے اور بلیم گیم کو انتہائ تک پہنچانے کے نتیجہ میں جتنی گھمبیر ہو چکی ہے‘ اسکی موجودگی میں نگران وزیراعظم یا نگران سیٹ اپ کی کسی دوسری شخصیت کی جانب سے کسی سیاسی شخصیت یا جماعت کے حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ نگران سیٹ اپ کے غیرجانبدارانہ اور شفاف کردار پر انگلی اٹھانے کا موقع نکال سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ہم ان سطور میں باربار یہی عرض کررہے ہیں کہ نگران سیٹ اپ کو سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کے معاملات پر کسی بحث مباحثہ میں الجھنے کے بجائے اپنی توجہ خالصتاً انتخابات کے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر ہی مرکوز رکھنی چاہیے۔
اس وقت چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ سال جنوری کے آخر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جا چکا ہے جس کی حتمی تاریخ کا تعین بھی اب کوئی دور کی بات نظر نہیں آتی کیونکہ الیکشن کمیشن نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کی ازسرنو اشاعت کے مراحل بھی تقریباً مکمل کر چکا ہے اس لئے انتخابات کی منزل قریب آنے پر انتخابات میں حصہ لینے کا حق رکھنے والی ہر جماعت اور ہر فرد کو انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کرنے اور اپنے اپنے انتخابی منشور پیش کرنے کا بھی قانونی حق حاصل ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بالعموم ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کو اپنے مخالفین کے تنقیدی نشتروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمارے انتخابی سیاسی کلچر میں مخالفین پر بے سروپا الزام تراشی معمول کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اس دوران محض ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کی جاتی ہے جس کیلئے حکومت میں شامل رہنے والی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والی جماعتوں کو اپنی اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریباً مساوی سہولت ملتی ہے۔ اسکے برعکس نگران عبوری حکومت کی ذمہ داری آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہوتی ہے۔ نگران سیٹ اپ کی تشکیل میں اسکی غیرجانبداری یقینی بنائی جاتی ہے جس کی رو سے وزیراعظم اور انکی کابینہ کے ارکان ایسے معاملات یا گفتگو سے گریز کرتے ہیں جس سے کسی مخصوص پارٹی کے ساتھ انکی ہمدردی یا مخاصمت کا تاثر اجاگر ہوتا ہو۔
چونکہ انتخابی اصلاحات ایکٹ اور مروجہ انتخابی قواعد و ضوابط کی روشنی میں انتخابات کی تاریخ کے تعین سے انتخابات کے انتظامات تک تمام معاملات کی کلی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے جس نے آئین و قانون کے تقاضوں کے تحت کسی جماعت یا امیدوار کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت یا نااہلیت کا بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اس لئے قانونی اور اخلاقی تقاضوں کے تحت بالخصوص نگران وزیراعظم کو انتخابات میں حصہ لینے والی کسی جمات یا امیدوار کی اہلیت کے بارے میں کوئی عمومی رائے دینے سے بھی گریز کرنا چاہیے تاکہ انکی غیرجانبداری پر کسی قسم کا حرف نہ آئے۔
کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے یا انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے آئین اور قانون کی جو شقیں موجود ہیں‘ انکی بنیاد پر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے مجاز فورم ہی فیصلہ کر سکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ کسی امیدوار کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین الیکشن کمیشن نے آئین کی دفعہ 63, 62 اور دوسرے متعلقہ قوانین کی روشنی میں کرنا ہوتا ہے جس کیخلاف متعلقہ شخص کو مجاز عدالتی فورمز پر اپیل کا بھی حق حاصل ہوتا ہے جبکہ کسی جماعت کو صدر مملکت کی جانب سے دائر کئے گئے ریفرنس کے تحت ہی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے جس کیلئے ماضی میں ہونیوالی کارروائیوں کی مثالیں موجود ہیں جبکہ کالعدم قرار پانے والی کوئی جماعت خود تو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی مگر اس میں شامل افراد بشمول اسکی قیادتیں اور عہدیداران کسی دوسری جماعت کے پلیٹ فارم پر یا انفرادی طور پر انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر کوئی قانونی قدغن عائد نہ ہوئی ہو۔
اس تناظر میں اگر پاکستان تحریک انصاف کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو نہ ابھی تک اس پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا کوئی ریفرنس دائر ہوا ہے اور نہ ہی اس پارٹی کے سربراہ سمیت اس پر پارٹی کے کسی عہدیدار یا رکن کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کی کوئی پابندی عائد ہے۔ اسی طرح میاں نوازشریف‘ آصف علی زرداری اور انکی پارٹی کے سیاسی مستقبل کا دارومدار بھی آئین و قانون کی عملداری پر ہے۔ سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے پریکس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھ کر ازخود کارروائی والے مقدمات میں متاثرہ فریقین کیلئے اپیل دائر کرنے کا راستہ بھی کھول دیا ہے اور پارلیمنٹ نے تاحیات نااہلیت والے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس نااہلیت کی حد پانچ سال مقرر کردی ہے اس لئے اگر کوئی سیاسی لیڈر کسی سابقہ مقدمے میں تاحیات نااہلیت اور قید کی سزائیں پا چکا ہے تو ازخود کارروائی والے مقدمے میں اسے اپنی سزاﺅں کیخلاف اپیل دائر کرنے کا بھی حق حاصل ہے اور اسکی نااہلیت کی سزا کے پانچ سال پورے ہونے پر وہ آنیوالے انتخابات میں حصہ لینے کا بھی مجاز ٹھہرے گا تاہم یہ سارے ماملات عدالتی فیصلوں کے ساتھ ہی مشروط ہیں۔
نگران وزیراعظم کو ان معاملات پر کسی رائے کے اظہار یا تبصرے سے بہرصورت گریز ہی کرنا چاہیے اور اسے مجاز فورموں کیلئے چھوڑ دینا چاہیے۔ انتخابی میدان بلاتفریق تمام جماعتوں کیلئے کھلا ہے اس لئے سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے منشور کے ساتھ بھرپور انداز میں انتخابی میدان میں اترنا چاہیے اور اپنے اپنے محاسبے کے لیئے خود کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ نوازشریف ملک واپس آکر اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کو لیڈ کرنے کا یقیناً حق رکھتے ہیں بشرطیکہ ان پر کوئی قانونی یا آئینی قدغن لاگو نہ ہو جائے۔