کہانی چل رہی ہے

جب بھی کوئی نئی کتاب میری نظر سے گذرتی ہے تو مجھے ایک اْمید نظر آئی ہے کہ ٹیکنالوجی کے اِس برق رفتار دور میںجب لوگوں کی اکثریت لفظ اور کتاب سیدْور ہو رہی ہے اور لکھنے پڑھنے سے عمومی بیزاری کا رْحجان ہے تو کچھ عظیم لوگ ہیں جو لفظ اور کتاب کو زندہ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔نئی نسل کا ایک طبقہ برملا کہتا ہے کہ کتاب کادور گذرچکا ہے جبکہ میری رائے ہے ہر دور کتاب سے گذرتا ہے۔ نئے دور کے تقاضوں کی وجہ سے کتاب کی صورت تو بدل سکتی ہے لیکن کتاب ہر صورت زندہ رہے گی۔ کتاب، کتاب ِ زندگی کی طرح ہوتی ہے جس میں اِنسان ذاتی، سماجی، روحانی اور عملی تجربات اور مشاہدات سے گزرتا ہے اور یوں ہر گذرا لمحہ وقت کے صفحات پر نقش ہوتا جاتا ہے۔زندگی کے مختلف ادوار میں اِنسان مختلف تجربات سے گذرتا ہے۔ اِنسان دْنیا کی حقیقت کو دیکھتا ہے۔ لفظ سیکھتا ہے اورتلخ و شیریں تجربات سے گذرتا ہے۔خوشگوار گذرنے والے یادگار لمحات زندگی کی کتاب میں خوشبو بکھیرتے ہیں اوردْکھ اور تکلیف میں گذرا سمے زندگی کی کتاب میں کرب کے طورپر لکھا جاتا ہے۔ زندگی میں اِنسان اپنی شناخت ڈھونڈتا ہے، زندگی کے مقاصد طے کرتا ہے اور اْن کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔ اِس دوران وقت کٹھن ہو یا آسان زندگی کو ایک نئی سمت ملتی ہے۔ پھر اِنسان اپنے ماضی میں جھانکتا ہے اور تجربات کی روشنی میں زندگی کے حقیقی معنی کی تلاش میں جْت جاتا ہے۔زندگی کی طرح کتاب بھی اِنسانی تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہوتی ہے۔
کتاب اِنسانی تہذیب و ثقافت کا ایک اہم ستون ہے جس کا معاشرتی ترقی اور ذہنی وسعت میں اہم کردار ہے۔ کتاب کے ذریعے اِنسان علم و آگاہی کے سمندر میں غوطہ زن ہو سکتا ہے۔ کتاب علم کی منتقلی کابنیادی اور دیرپا ذریعہ ہے جس کی بدولت اِنسان اپنی فکری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرسکتا ہے۔ کتاب اِنسان کو نئے خیالات، مختلف نقطہ ہائے نظر اور تنقیدی سوچ کی جانب راغب کرتی ہے اور کتاب ہی اِنسان کو تفکر و تدبر سے رْوشناس کرتی ہے۔ کتاب تاریخ و تہذیب کا حافظہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہم قدیم تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہیں۔کتاب اِنسان کے اندر تخلیق کی نئی راہیں کھولتی ہے اور کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ کتاب کے بغیر اِنسانی تہذیب اور اِنسانی ارتقاء کا تصور ممکن نہیں ہے۔ کتاب علم اور خیالات کی دْنیا کی طرف کھلنے والی ایک کھڑکی ہوتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے ہم محض لکھے گئے الفاظ نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ ایک وسیع وعریض دْنیا میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں جہاں خیالات و مشاہدات اپنی وسعت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور کتاب ہمیں نئے جہانوں سے متعارف کراتی ہے۔ یہ ہمیں مختلف ادوار، ثقافتوں اور معاشرتوں کے بارے میں جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ کتاب ایک ایسی کھڑکی ہے جو ہمیں خود اپنی شخصیت کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع دیتی ہے۔کتاب خودشناسی کا ذریعہ ہیجس کی بدولت ہم اپنی سوچوں کو نئے زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
کہانی چل رہی ہے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک خوبصورت کتاب ہے۔ کہانی چل رہی ہے شہزاد نیر کی خوبصورت تصنیف ہے جو مائکروفکشن پر مشتمل اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔کشادہ فکری اور رواداری کی پہچان رکھنے والے شہزاد نیر ادبی حلقوں میں جانی پہچانی علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ وہ اندرون و بیرون ملک لاتعداد ادبی تقاریب میں شرکت کر چکے ہیں اور شعری دْنیا میں ایک مستند نام ہیں۔ وہ چار شعری مجموعوں برفاب ، چاک سے اْترے وجود، گرہ کھلنے تک اور خوابشار کے خالق ہیں۔ انہوں نے 2 کتابیں انگریزی سے اْردو میں ترجمہ بھی کی ہیں۔ اْردو نظم اور غزل میں اْن کا کام خاص اہمیت کا حامل ہے اَس لئے برفاب کی اشاعت پر انہیں پی ای این انٹرنیشنل ایوارڈ اور چاک سے اْترے وجود پر پروین شاکرعکسِ خوشبو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ میری اور شہزاد نیر کی شناسائی دہائیوں پر محیط ہے کہ ہم دونوں فطرت میں خاکی ہیں۔ہم دونوںنے خاصا وقت سیاچن گلیشئر میں وطن کے دفاع میں گذارا جس کا پرتو شہزاد نیر کی پہلی کتاب برفاب میں اور دیگر تصانیف میں دکھائی دیتا ہے۔
میں شہزاد نیر کی شاعری کا مداح ہوں لیکن مجھے ذاتی طور پر حیرت ہوئی جب گزشتہ دِنوں لاہور میں قیام کے دوران اْنھوں نے نثر پاروں پر مشتمل اپنی کتاب کہانی چل رہی ہے پیش کی۔ نثر سے شغف رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ نثر نگاری ایک سنجیدہ اور کٹھن کام ہے۔ نثر نگاری اور شاعری دونوں ادب کی اہم اصناف ہیں لیکن نثر نگاری کو شاعری سے زیادہ پیچیدہ گردانا جاتا ہے۔ نثر نگاری میں خیالات کا صاف اور واضح الفاظ میں بیان، معانی اور مفاہیم کی وضاحت کے لیے تفصیل اور منطقی تسلسل ، موضوعات کی وسعت ، خیالات اور نقطہ نظر کو جامع رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ نثر نگار کو اپنے الفاظ میں زندگی بھرنی ہوتی ہے اوراِس کے لئے خوبصورت لفظوں کی تراکیب کے علاوہ علمیت ، گہرائی اور تحقیق کا ہنر بھی درکار ہوتا ہے اور یہ ہنر مشق اور مہارت کا متقاضی ہے۔کتاب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ شہزاد نیر ایک کْہنہ مشق نثر نگار ہیں۔
کہانی چل رہی ہے 144 مائکروف اور 5 افسانوں پر مشتمل ایک دلکش اور منفرد مجموعہ ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوئوں کا احساس دلاتی کہانیاں ہیںجو انسانی زندگی کے المیوں اور دْکھوں سے عبارت ہیں۔حقیقت سے قریب کردار نگاری اور منظر کشی شہزاد نیر کی کہانیوں کا انداز ہے۔ لمحہ لمحہ بولتی کہانیوں کے دوران قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ بھی اِن کہانیوں کا ایک کردار ہے۔ مختصر کہانیوں کی جاذبیت ایسی ہے کہ کہانی کے گذرتے ہی کہانی کا منفرد پیغام قاری کے دِل کو چھوتا ہوا گذر جاتا ہے۔انداز ِ بیاں نہایت سادہ اوردل کش کہ پڑھنے والے کویوں لگتا ہے کہ کہانی لکھی نہیں گئی بلکہ سنائی گئی ہے۔ کہانی چل رہی ہے میں کہانیوں کے موضوعات کا بنیادی مرکز اِنسان ہے۔ اِنسان سے جْڑے روزمرہ کے موضوعات خواب اور تعبیریں ، غربت اور بے بسی، دْکھ اور محرومی، محبت اور نفرت، ظلم اور بربریت اور بے حس معاشرہ ہیں۔ کتاب میں شامل چند کہانیاں ، ریاست اور بم، غیرت ایمانی، صلہ رحمی، دْکھ میں دبی گفتگو ، مکان کا درد، پاتال سے اٹھتی ہوک، سرخ لکیریں ، عمر سے لمبا روگ، جوان موت، جدید کا قدیم، پہنچی وہیں پہ خاک، روٹی بندہ کھا جاندی اے، نسل کشی اور روحوں کا ملن خوب ہیں اوراِس حقیقت کی غماز ہیں کہ مصنف کی معاشرے پر گہری نظر ہے۔
جس انداز سے شہزاد نیربہت سے معاشرتی پہلوئوں کو اپنی کہانیوں کا مرکز بنایا اور محنت کش طبقے کی زندگی، غربت، بے روزگاری، ناانصافی، اور طبقاتی تقسیم جیسے مسائل کو اجاگر کیاہییہ بلا شبہ سماجی حقیقت نگاری (Social Realism) کا پر تو ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کے وسط میں ہوا جب اْس وقت کے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں سماجی ناانصافی اور طبقاتی فرق کو موضوع بنایا۔ سماجی حقیقت نگاری میں ادیب سماجی مسائل ،طبقاتی تقسیم، مظلوم طبقے کی حمایت اور حقیقت پسندی کو اپنی تخلیقات کا مرکز بناتے ہیں۔شہزاد نیر کی کہانیوں میںسماجی حقیقت نگار ی کا گہرا عکس اْبھرتا ہے۔ معاشرتی نظام کے تضادات اور مسائل کو اجاگر کرنا کسی بھی وقت کی اہم ضرورت ہوتی ہے اور اِس کی بدولت معاشرتی مسائل کو ایک نئے زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کہانی چل رہی ہے بلا شبہ ادب میں ایک نہایت اہم اضافہ ہے اور شہزاد نیر سے اْمید ہے وہ مستقبل میں بھی نثر نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھاتے رہیں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن