شاعری اور موسیقی کی دنیا میں دو غزلیں کچھ اپنا وکھرا ذائقہ رکھتی ہیں۔ پہلی فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ ہے۔ یہ ملکہ ترنم نے کچھ ایسے گائی کہ بعد میں فیض نے یہ غزل ہی اسے بخش دی۔ دوسری سید عبدالحمید عدم کی غزل ’وہ باتیں تری وہ فسانے ترے‘ہے۔ملکہ پکھراج نے اسے یوں گایا کہ لفظ لفظ خود بولنے لگتے ہیں۔ عدم کی اسی زمین میں ہمارے عہد کے لیجنڈ شاعر انور مسعود نے دو مصرعوں میں ہماری ساری معاشی کہانی لکھ دی ہے۔ ان دو مصرعوں میں ہمارا پورا بجٹ ہے، پوری سیاست ہے اور پورا سالم نواز شریف۔وہ دو مصرعے یوں ہیں:
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے ایک سابق صدر جو، ن لیگی بھی ہیں، اپنے قائد میاں نواز شریف سے زیادہ سمجھدار ثابت ہوئے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی طرح گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن پر قرضہ نہیں چڑھایا۔ مرتضیٰ کمال لائبریری کے پچھواڑے ایک نکر بیچ کر کروڑوں اکٹھے کر لئے۔ وکلاء و عمرے کروائے۔ خواتین ممبران کو ٹھنڈے علاقوں کی سیر کروائی۔ یقینا اپنے مالی حالات بھی بہتر کر لئے ہونگے۔ بار اکاؤنٹ، آڈٹ، حساب کتاب، چھوڑیئے ان خرافات کو، یہ کافر ملکوں کے وطیرے ہیں۔ ہم اللہ کے فضل سے پکے مسلمان ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آنے والے بار کے صدر محترم نے ان سے حساب کتاب کیوں نہیں پوچھا؟ وہ بڑے کائیاں نکلے۔ وہ بار میں حساب کتاب کا رواج ہی نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ چیمبروں کی یہ تجارت دھن دولت والوں کو بڑی وارہ کھاتی ہے۔ نہ رجسٹری، نہ ڈی سی ریٹ کا چنگل، نہ ایف بی آر کی پوچھ گچھ۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ میاں یہ کالا دھن ہے یا سفید۔ اس سہانے بیوپار میں سیکرٹری بار نے اتنی سج دھج والا دفتر پایا کہ وہاں بیٹھا بندہ سیشن جج سے انیس بیس کے فرق سے نظر پڑتا ہے۔ آپ پوچھیں گے، انیس کون ہے اور بیس کون؟ ہم نہیں لکھیں گے۔توہین عدالت کا خوف اللہ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ جب سے احاطہ کچہری میں وہ لوگ آئے ہیں جنہیں اپنی خاندانی کاروباری سرگرمیوں کے قانونی اور غیر قانونی تحفظ کیلئے وکالت کے لائسنس کی ضرورت ہے، چیمبروں کے بھاؤ بڑھ گئے ہیں۔فائٹر وکیل رضوان گل بہت بہتر بتا سکے گا کہ یہ وکالت کا لائسنس کتنا طاقتور ہے اور کہاں کہاں کام آتا ہے؟یہ لوگ باقاعدہ وکالت نہیں کرتے۔ صرف کچہری باقاعدہ اہتمام سے تشریف لاتے ہیں۔ بار کے عہدوں کے حصول کیلئے ادھر اْدھر میل ملاپ رکھتے ہیں۔ چیمبروں کی قیمت بڑھ جانے پر ہر رجیم نے چیمبروں کی نیلامی کی۔ واش روم ڈھا کر چیمبرز بنائے گئے۔ ڈسپنسری کو ایک مذہبی صدر بار نے چیمبروں میں ڈھال کر نیلام کر دیا۔ شاید ان کا دوا دارو سے زیادہ تعویز دھاگے، جنتر منتر ترنتر پر اعتقاد تھا۔ بیچارے بوڑھے محنتی وکیل طبعیت خراب ہونے پر ادھر کا رخ کرلیتے تھے۔ وہ اس سہولت سے بھی گئے۔ خالی نکریں واش روم، ڈسپنسریاں ختم ہونے کے بعد اب صرف راستے ہی بچے تھے۔ موجودہ صدر، سیکرٹری جن کی میعاد تین ماہ کے قریب رہ گئی ہے راستوں کے چیمبرز بنانے پر تْلے ہوئے ہیں۔ایک پنجابی شاعرہ طاہرہ سراکہتی ہیں:
بندہ مدھیا جاندا اے ایویں راہ نئیں ملّی دا
ترجمہ:راستوں پر ناجائز قبضہ ہو جائے تو بھلے مانس بیچارے کچلے جاتے ہیں۔ کچھ بھلے مانس داد فریاد لے کر عدلیہ کے حاکم ضلع کے پاس گئے۔ انہوں نے چیمبروں کی تعمیر رکوا دی۔ دو ہفتوں بعد اللہ جانے کیا ہوا، پھر تعمیر شروع ہو گئی۔ پھر ایک شریف آدمی نے اس طرف توجہ دلائی۔ کہنے لگے۔ یوں سمجھیں آپ نے مجھے کچھ کہا ہی نہیں۔ اسطرح میں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ پھر اس شریف آدمی نے یہی سمجھ کر بس چپ ہی سادھ ہی۔ کیا معاملہ ہے، ہم کچھ نہیں جانتے۔
سنا ہے ہر ضلع کی عدلیہ بارے معاملات پر نظر رکھنے کو ایک ہائیکورٹ کے عزت مآب انسپکشن جج ہوا کرتے تھے۔ عزت مآب جسٹس شاہد بلال کے سپریم کورٹ جانے کے بعد کن کی تقرری ہوئی ہے؟ کوئی پتہ نہیں چل رہا۔ کوئی ہلچل ہو تو پتہ چلے۔
ایک ہزار وکلاء کے دستخطوں کے ساتھ ایک عرضداشت چوہدری احسن بھون کے حضور پیش کی گئی۔ ان دنوں تمام بار کونسلوں میں ان کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ اس درخواست میں چیمبروں کی تعمیرات روکنے کے بارے حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا تھی۔ انہوں نے نہایت دیدہ دلیری سے قانون دانوں کو لا قانونیت سے تعمیرات روکنے کا مشورہ دیا۔ ایک اہم سوال ہے کہ اگر ان کی قائد محترمہ عاصمہ جہانگیر جنت مکانی زندہ ہوتیں تو کیا وہ ایسا مشورہ دے سکتی تھیں؟
ان چیمبروں کی نیلامی کے حق میں صرف یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ بار فنڈ میں ملازمین کی تنخواہوں کے لئے کوئی رقم نہیں۔ رجسٹری برانچ سے حاصل کردہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی فی رجسٹری ’’جگا‘‘کدھر جاتا ہے؟ یاد رہے ’’جگے‘‘ہمیشہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہوتے ہیں۔ لیکن کسی جگا پہلوان یا بدمعاش کی زندگی میں اسے کوئی غیر اخلاقی یا غیر قانونی کہنے کی جرات نہیں کرتا۔ سائیکل سٹینڈ کے ٹھیکے، دکانات کے کرایے، بس جانے ہی دیں۔ سچی بات ہے کہ یہ تمام آمدن پانچ چھ کروڑ روپے سالانہ سے کم نہیں اور یہ بار کے سالانہ اخراجات کیلئے بہت کافی ہیں۔ پھر ہر سال حکمرانوں سے بھی انہیں کوئی گرانٹ مل جاتی ہے۔آخر میں ایک مزے کی بات ہے کہ پچھلی رجیم نے بھی ان چیمبروں کی تعمیر شروع کی تھی۔ ان دنوں چیمبروں کی تعمیر روکنے والے وہی اصحاب تھے جو آجکل چیمبروں کی تعمیر میں پیش پیش ہیں۔
یہ جناب شیخ کا فلسفہ میری سمجھ نہ آسکا
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
اگر یہ تعمیر پچھلے برس غیر مناسب تھی تو اس برس عین مناسب کیوں ہے؟ کالم یہاں تک پہنچا تو پتہ چلا کہ چیمبروں کی تعمیر چھتوں تک پہنچ گئی ہے۔ اب شاید انہیں گرانا ممکن نہیں رہا۔ اب یہ مناسب بھی نہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مداخلت فرمائیں اور یہ چیمبرز نیلام کرنے کی بجائے پیشہ وکالت سے منسلک نوجوان حقداروں کو ’’نہ نفع نہ نقصان‘‘کی بنیاد پر بذریعہ قرعہ اندازی الاٹ فرما دیئے جائیں۔ وما علینا الا البلاغ۔