پاکستان کا قیام درحقیقت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک شاندار کامیابی تھی، جنہوں نے اپنی جانوں اور املاک کی بے مثال قربانیوں کے بعد ان انتہا پسند ہندوؤں کے نفرت انگیز اور تعصب آمیز رویوں سے نجات حاصل کی، جو ہمیشہ مسلم ثقافت سے نفرت کرتے رہے اور ان کے دلوں میں بر صغیر پر مسلمانوں کی تقریباً 500 سال تک حکومت ایک کانٹے کی طرح چبھتی تھی بد قسمتی سے قائداعظم کی وفات اور خان لیاقت علی خان کے افسوسناک قتل کے نتیجے میں ہمارے آئین کی تشکیل میں تاخیر ہوئی۔ یہ پاکستان کی نئی ریاست کے لیے پہلا مہلک دھچکا تھا۔ آئین اور معتبر منتخب سیاسی قیادت کی عدم موجودگی میں بیوروکریسی نے اختیار سنبھالے رکھا اس ریاستی خلا نے طاقت کے ایوانوں تک عسکری قیادت کی رسائی کی راہیں ہموار کر دیں طویل فوجی دور حکومتوں کے دوران جمہوری حکومتیں بھی آئیں، جو بد قسمتی سے اکثر اپنے آئینی دوران حکومت کو مکمل کرنے کا موقع نہ پا سکیں۔ اس کا سبب بے جا عسکری مداخلت کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی ایک دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے عسکری قیادت کو مدعو کرنا، اعلیٰ ترین بیرسٹرز کا مارشل لا حکومتوں کو جائز قرار دلوانا اور اعلیٰ عدلیہ کا فوجی حکومتوں کو آئین بدلنے کے وہ اختیارات دینا بھی تھا جو سپریم کورٹ کے پاس بھی نہ تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے دو دیگر انتہائی اہم ستون، یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ، کو نقصان پہنچا۔ مزید برآں، پالیسی میں تسلسل کی کمی نے پائیدار اقتصادی ترقی اور طویل مدتی انتخابی و عدالتی اصلاحات کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔نظام کو آخری مہلک دھچکا 2017 میں لگا جب آئینی وزیر اعظم کی راتوں رات بد نما عجلت میں منظم انداز میں بے دخلی کو یقینی بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت میاں محمد نواز شریف کی کارکردگی کی بنا پر تمام جائزوں میں انہیں اگلی پانچ سال کی مدت ملنے کی امید تھی، جس میں پائیدار اقتصادی ترقی، سی پیک معاہدے پر دستخط، گوادر پورٹ، ہوائی اڈوں اور موٹرویز کے بین الاقوامی معیار کے مواصلاتی نیٹ ورک کی ترقی، اور شدید توانائی کے بحران کے حل کے علاوہ ایک جامع قومی ایکشن پلان کے ذریعے کامیاب انسداد دہشت گردی کی پالیسی کا تصور اور عمل درآمد شامل ہے۔ان کی غیر قانونی بے دخلی نے ، بلا شبہ ریاست کے تمام سیاسی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچوں کو زبردست دھچکا پہنچایا، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ تھی کہ عدلیہ سمیت غیر سیاسی قوتوں کا پسندیدہ امیدوار، جو پی ایم ایل این کی حکومت کی جگہ آیا، اپنی بین الاقوامی کرکٹ کی شہرت کے باوجود اپنے سیلبریٹی موڈ سے باہر نہ آ سکا۔ سیاسی پیچ و تاب سے نا آشنا غلط عہدوں پر غلط لوگ متعین کئے اور الزام غیر سیاسی مشیروں کو دیا۔اس کے نتیجے میں وہ سیاسی، سفارتی اور حکومتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ دوسرا مسلہ یہ تھا کہ آر ٹی ایس کے جادو کے باوجود، پی ٹی آئی حکومت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی، جس کی وجہ سے انہیں اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑا تاکہ وہ ایک اقلیتی حکومت بنا سکیں۔ لیکن جب اتحادیوں نے اپنی حمایت واپس لے لی تو یہ حکومت ایک ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ پی ٹی آئی حکومت کی جلد بازی میں بے دخلی سیاسی لحاظ سے ایک غیر دانشمندانہ قدم ثابت ہوا کیونکہ اس نے اچانک بے دخل کیے گئے رہنما کے لیے ان کی کمزور حکمرانی کے باوجود ہمدردی کی ایک لہر کو جنم دیا اپوزیشن کا خیال بہر حال یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کی فوری بے دخلی آئینی طریقوں سے ضروری تھی تاکہ ملک کے ممکنہ دیوالیہ پن سے بچا جا سکے، چاہے اس کی سیاسی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ دیوالیہ پن کو کامیابی سے روکا گیا، لیکن پی ڈی ایم پارٹیوں کو زبردست سیاسی نقصان اٹھانا پڑا جو 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں واضح ہوا، جہاں پی ٹی آئی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری، لیکن اتنی بڑی بھی نہیں کہ اپنی حکومت بنا سکے۔ اس نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا، کیونکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ اس کے علاوہ، کچھ حلقوں میں دھاندلی کے سنجیدہ الزامات لگائے گئے، جن کی تحقیقات قانونی طریقوں سے کی جا رہی ہیں۔نتیجتاً، پاکستان اس وقت شدید سیاسی تقسیم اور بند گلی کی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے، کیونکہ اپوزیشن اہم اداروں جیسے الیکشن کمیشن، عدلیہ اور یہاں تک کہ فوج کو متنازعہ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بدقسمتی سے عدلیہ میں کچھ دراڑیں نمایاں ہو گئی ہیں۔ اس لیے فوری قانونی اصلاحات کی ضرورت پیش آئی ہے، جن کے لیے ضروری آئینی ترامیم کی تجویز دی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے، وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی فوری ضرورت ہے تاکہ موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جا سکے، جہاں مختلف عدالتوں میں 24 لاکھ کیس زیر التوا ہیں، جن میں سے 60,000 کیس صرف سپریم کورٹ میں ہیں، جہاں ہر سال مزید 25,000 نئے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے قانون کی حکمرانی کے انڈیکس 2023 میں پاکستان 142 ممالک میں سے 130 نمبر پر ہے۔ صرف سوڈان، صومالیہ اور شام جیسے ممالک ہم سے پیچھے ہیں۔ مزید برآں، ناقص احتساب اور کمزور قوانین کی حکمرانی کی وجہ سے عالمی بدعنوانی کے تاثر کے انڈیکس (CPI) 2023 میں پاکستان 180 ممالک میں 133 نمبر پر ہے۔ دوسرا، عدلیہ میں ترقی صرف چند اعلیٰ امیدواروں کی قابلیت پر ہونی چاہیے، جیسے فوج میں جہاں ہر افسر کی موجودہ رینک میں کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اس سے پہلے کہ اسے ترقی دی جائے۔ اگر کسی جج یا جنرل کی کارکردگی شکایات، سیاسی مداخلت یا بدعنوانی کی وجہ سے معیار پر پورا نہیں اترتی، تو اسے کسی ادارے کا سربراہ یا اعلیٰ جج بننے کے لیے صرف سینارٹی کی بنیاد پر ترقی نہیں دی جا سکتی۔ امریکہ میں، صدر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر کرتا ہے جس کی توثیق سینیٹ سے حاصل ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ، جو عوام کے منتخب نمائندوں پرمشتمل ہوتی ہے، عوامی مفادات کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ طاقت کی تین منبوں کے تصور کے باوجود، پارلیمنٹ کے اراکین عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، حکومت پارلیمنٹ کے سامنے نگرانی کے ذریعے اور جج حکومت کے سامنے عوامی مقدمات کو نبٹانے کے لیے جوابدہ ہوتے ہیں تیسرا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت کے حوالے سے تجویز کردہ ترمیم بھی درست ہے تاکہ ان کے مؤثر کردار اور قانونی اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے۔ موجودہ نظام میں، سینارٹی کی بنیاد پر ترقی پانے والا جج ایک ماہ بعد ریٹائر ہو سکتا ہے اور ریٹائرڈ چیف جسٹس کے فوائد اور مراعات تا حیات حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح، ایک اور نوجوان چیف جسٹس دس سال تک اپنے عہدے پر رہ سکتا ہے، جس سے دوسرے قابل ججوں کے لیے ترقی کے مواقع بند ہو جاتے ہیں۔آخر میں، آئین ایک سماجی معاہدہ ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتا ہے۔ اگر لوگوں کو انصاف میں تاخیر، غیر ضروری عدالتی سرگرمی اور سیاست زدگی کی وجہ سے ہو رہی ہو تو پارلیمنٹ کے پاس اس عدم توازن کو درست کرنے کے لیے موجودہ حکومت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا تمام حقوق اور آئینی اختیار ہے۔ موجودہ وقت میں، تینوں اقسام کے معاملات، بشمول دیوانی، فوجداری، اور آئینی مقدمات، سپریم کورٹ میں جاتے ہیں، جہاں اس وقت صرف سترہ جج ہیں۔ یہ وکلاء کے لیے بے حد مشکلات پیدا کر رہا ہے جس کا حل صرف آئینی وفاقی عدالت کے قیام سے ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے اور اہلیت اور موذونیت کی بنیاد پر منتخب چیف جسٹس کی مدت کو طے کرنے سے بھی ہونا چاہیے۔